او آئی سی کا اجلاس اور مسئلہ کشمیر

402

پاکستان کے لیے یہ بڑے اعزاز اور فخر کی بات تھی کہ ایک بار پھر عالم اسلام کی بڑی تنظیم او آئی سی کا اجلاس اس کی سر زمین پر ہوا۔ یہ دو روزہ اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا جو پاکستان کے لیے اعزاز کی بات تھی اور اس پر اعتماد کا بھی اظہار تھا گو کہ ان دنوں پاکستان سیاسی طور پر خلفشار کا شکار ہے۔ ملک کی ساری فضا مکدر بن چکی ہے اس مکدر فضا میں یہ اہم اور غیر معمولی اجلاس انعقاد پزیر ہوا اور ملکی مفاد میں اس کے لیے تحریک عدم اعتماد کو موخر نہ کیا جا سکا جو اس بات کی علامت ہے کے ہمیں ملکی مفادات کا کتنا خیال ہے ماضی میں بھی پی ٹی آئی نے اسی طرح کا کردار ادا کیا تھا اسلام آباد دھرنے کے موقع پر چائنا کے صدر پاکستان کے دورے پر آنا چاہتے تھے لیکن پی ٹی آئی نے اپنا احتجاج موخر نہ کیا اور اس طرح چائنا کے صدر کا دورہ ملتوی کرنا پڑا جس سے ملک کی ساکھ متاثر ہوئی بہرحال اس دفعہ دو روزہ وزاراء خارجہ کا اجلاس ہوا ہے جس میں مسلمان ملکوںکے بڑی تعدا میں وزراء شریک ہوئے اور انہوں نے عالم اسلام کے مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی اور قراردادیں بھی پاس کیںجو ایک خوش آئند بات ہے۔ بہر حال او آئی سی کی تنظیم اپنی خامیوں کوتائیوں کے باوجود ایک غنیمت ہے اور عالم اسلام کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ایک بڑی کامیابی ہے آج نہیں تو کل یہ ادارہ عملاً اقدامات اٹھانے کے لیے تیار ہو سکتا ہے ۔ ملت اسلامیہ کو اسی وقت کا انتظار ہے بہر حال اس اجلاس کے انعقاد سے حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے کے عالم اسلام نے پاکستان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور یہ تاثر بھی تحلیل ہوا کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہو گیا ہے پاکستان کے لیے بڑے اعزاز اور فخر کی بات ہے اجلاس کی اور ایک بڑی بات تھی کہ اجلاس میں چائنا کا وزیر خارجہ بھی پاکستان کی کوششوں سے شریک ہوا جو پاکستان کے لیے ایک اور اعزاز کی بات ہے کہ وقت کی ایک ابھرتی ہوئی سپر طاقت اس کی دعوت پر اجلاس میں شریک ہوئی۔ اس کے علاوہ اجلاس میں کشمیری قیادت بھی شریک ہوئی کشمیر سے صدر آزاد کشمیر، وزیر اعظم آزادکشمیر اور حریت کانفرنس کے رہنما غلام محمد صفی، فیض نقشبندی بھی شریک ہوئے۔ گو او آئی سی کے حوالے سے لوگوں کی رائے اچھی نہیں ہے اس ادارے نے مسلمانوں سے زیادہ غیروں کی ترجمانی کی ہے اس بار بھی او آئی سی نے چند قراردادیں ہی پاس کیں اور عملاً عالم اسلام کے مسائل کے حل کے لیے اقدامات نہ اٹھائے لیکن اس بار کا اجلاس بھرپور ہوا اور اس میں عالم اسلام کے ایشوز پر گفتگو ہوئی اجلاس میں چائنا کے وزیر خارجہ کی شرکت اور کشمیری قیادت کا شریک ہونا خوش آئند ہے اس کے علاوہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر، فلسطین اور اسلامو فوبیا پر وزیر اعظم عمران خان کی تقریر موثر رہی ہے۔ اس کے علاوہ وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی کا خطاب بھی کشمیر کے حوالے سے بہتر تھا اجلاس میں فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے اعلامیے جاری ہوئے جو ماضی کے مقابلے میں کافی جاندار تھے اس وقت کشمیر کے حوالے سے اجلاس میں اعلامیہ پیش خدمت ہے۔
۱۔ اعلامیہ میں اہل کشمیر کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دینے کی بات کی گئی۔
۲۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی۔
۳۔ پانچ اگست 2019 کے بھارتی یک طرفہ اقدامات کو یکسر مسترد کیا گیا جو آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا اور حق خود ارادیت کے خلاف ایک سازش ہے۔
۴۔ او آئی سی نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے 05 اگست 2019 کے بعد اٹھائے گے تمام غیر قانونی اقدامات کو واپس لے اور یہ مطالبہ بھی کیا کے بھارت او آئی سی کے خصوصی نمائندے برائے جموں و کشمیر فیکٹ فائنڈنگ مشن کو انسانی حقوق کے بارے میں غیر جانبدرانہ جائزہ لینے کے لیے مقبوضہ کشمیر دورہ کرنے کی اجازت دے اور اقوام متحدہ کے نمائندہ کو بھی کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دے۔
اعلامیہ کو دیکھتے ہوئے کہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں او آئی سی کے اجلاس کے لیے غیر معمولی تیاری کر رکھی تھی اس کا اظہار اس اعلامیہ سے ہوتا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ او آئی سی کے رکن ممالک اس اعلامیہ کے مندرجات کے حصول کے لیے تعاقب جاری رکھیں بہر حال یہ پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے جس پر موجودہ حکومت مبارک باد کی مستحق ہے کاش اسلامی ممالک اپنی ذمے داریوں کو محسوس کریں اور امہ کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کر سکیں!
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے سائل سے لے کر تابخاک کاشغر