سلطان محمود غزنوی کے پاس ایک شخص ایک چکور لایا جس کا ایک پائوں نہیں تھا سلطان نے اس چکور کی قیمتی پوچھی تو اس شخص نے اس کی قیمت بہت زیادہ بتائی سلطان اس کی زیادہ قیمت سنے پر حیران ہوا اور پوچھا کہ اس کی اتنی زیادہ قیمت ہونے کی کیا وجہ ہے جبکہ اس کا ایک پائوں بھی نہیں ہے وہ شخص بولا کہ جب میں چکوروں کا شکار کرنے جاتا ہوں تو اس چکور کو بھی ساتھ لے جاتا ہوں اور اس کو جال کے ساتھ باندھ دیتا ہوں یہ چکور بہت عجیب سی آوازیں نکالتا ہے دوسرے چکور اس کی آواز سن کر فوری آجاتے ہیں اور پھر میں انہیں پکڑ لیتا ہوں یہ سن کر سلطان نے فوری اس چکور کی قیمت ادا کی اور اس کو ذبح کر دیا جس پر چکور فروخت کرنے والے شخص نے سلطان سے پوچھا اتنی زیادہ قیمت دینے کے باوجود آپ نے اس کو ذبح کیوں کیا تو سلطان محمود غزنوی نے کہا جو دوسروں کی دلالی کے لیے اپنوں سے غداری کرے اس کا انجام ایسا ہی ہونا چاہیے۔ بد قسمتی سے آج پاکستان میں بھی سیاسی چکوروں کی خریدو فروخت کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں ہماری نظر میں یہ چکور صرف دلال ہی نہیں بلکہ غدار بھی تھا جو اپنے ہی لوگوں کے ساتھ غداری کا بھی مرتکب ہورہا تھا۔
سب سے پہلے تو ہم اس بات کی مذمت کرتے ہیں کہ کسی بھی فرد پر بغیر ٹھوس شواہد کے ملک سے غداری کا الزام عائد کرنا ناانصافی ہوگا البتہ شک کی بنیاد پر الزام عائد کرتے ہوئے اس کو ثابت کرنے کے ٹھوس شواہد دیے جاسکتے ہیں تین اپریل کو ملکی تاریخ میں ایک ایسا بحران آیا جس کی شاید کسی کو اُمید نہیں تھی اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی گئی جس کو ڈپٹی اسپیکر نے منتخب عوامی حکومت کے خلاف بیرونی سازش قرار دیتے ہوئے ایک رولنگ کے ذریعے مسترد کر دیا چند منٹوں بعد ہی وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں صدر پاکستان کو قومی اسمبلی کو فوری تحلیل کرنے کا مشورہ دیا جس پر فوری عمل کرتے ہوئے صدر نے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا حکم دیا جس کے چند گھنٹوں بعد عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس اقدام پر از خود نوٹس لے لیا گیا عدم اعتماد کی تحریک مسترد اور اسمبلیاں تحلیل ہونے اور عدالت عظمیٰ کے ازخود نوٹس تک کی کارروائی میں صرف حیران کن چند گھنٹے لگے۔
یہ حقیقت ہے کہ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں یہ ملک ہے تو اس کے تمام تر ادارے ہیں اگر خدانخواستہ یہ ملک نہ رہا تو نہ ہم ہوں گے اور نہ ہی معزز ادارے اور ان کی عزت وقار محفوظ رہے گی و زیر اعظم کی جانب سے قومی سلامتی کے اداروں کی مکمل تصدیق کے ساتھ ایک دھمکی آمیز خط موصول ہوا جس میں پاکستان کی سیاست میں ایک مذموم سازش کے تحت ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کی گئی پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت کی گئی اس سازش کے تحت ملک میں ایک بحران پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس پر وزیر اعظم کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو اس دھمکی آمیز خط پر اعتماد میں لینے کی پیشکش کی گئی مگر افسوس عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس پیشکش پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ہمارے خیال میں اگر عدالت عظمیٰ اُس وقت کے وزیر اعظم کی پیشکش پر نوٹس لے لیتی تو شاید آج ازخود نوٹس کی ضروت پیش نہ آتی اگر اُس وقت عدالت عظمیٰ آئین میں گنجائش تلاش کرتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک کو چند روز کے لیے روک کر اس دھمکی آمیز خط کی غیر جانبدار تحقیقات کرتی تو یقینا ملک میں موجود ہ سیاسی بحران جنم نہیں لیتا۔
آج ملک سیاسی بحران کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے مگر تمام تر سیاسی جماعتیں اس وقت بھی غیر سنجیدگی کا مظاہر کر رہی ہیں آج اپوزیشن کی جانب سے آئین کو توڑے جانے کا ہنگامہ برپا ہے عوام آج اپنے حکمرانوں سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا جس آئین کا آج آپ اپنے مفادات میں مکمل دفاع کر رہے ہیں کیا پچھلے چالیس سال سے آپ اس آئین کی دھجیاں نہیں اُڑارہے کیا جب آپ کو یہ قوم اپنے قیمتی ووٹ سے ایوانوں تک پہنچاتی ہے اور جب آپ اس آئین کے تحت حلف اُٹھا کر ملک و قوم سے وفاداری ملک و قوم کی خدمت کاعہد کرتے ہیں اور پھر چند ماہ بعد ہی اس آئینی حلف کو اپنے اقتدار کی کرسی تلے روند ڈالتے ہیں غریب متوسطہ عوام کو نااُمید مایوس کرتے ہیں تو اُس وقت آپ کو پاکستان کے مقدس آئین کا درد کیوں نہیں ستاتا یہ اس ملک وقوم کی بد بختی رہی ہے کہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہی ہمارے حکمرانوں کے ضمیر سو جاتے ہیں جس کو جاگنے کے لیے ہمیں اگلے عام انتخابات کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
آج ملک معاشی سیاسی آئینی بحران کی زد میں ہے یہ کوئی نیک علامت نہیں اس وقت ملک کا سیاسی منظر نامہ ضرورت سے زیادہ خراب ہوگیا ہے عدالت عظمیٰ کا جو بھی فیصلہ آیا وہ سب کو قابل قبول ہونا چاہیے مگر ساتھ ہی اس ملک کے دفاعی سلامتی کے ا داروں اس ملک کی معزز عدالتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست میں سیاسی ضمیر فروشوں سیاسی خانہ بدوشوں وفادار اور غدار کی درست تشریح کر دیں تاکہ ایک حد مقر ر ہوجائے ہم سب مسلمان اور پھر ایک محب وطن پاکستانی ہیں کوئی بغیر ٹھوس شواہد کے کسی بھی سیاسی انتقام کے لیے کسی کو غدار ہونے کا سر ٹیفکیٹ نہیں دے سکتا اس وقت ملک سیاسی میں بحران ہے جس کا واحد سیاسی حل یہ ہے کہ ہمیں غیر جانبدار شفاف اندرونی بیرونی مداخلت سے پاک انتخابات کی جانب بڑھنا ہوگا تاکہ قوم ایک بار پھر اپنے قیمتی ووٹ سے اس ملک کے حقیقی نمائندوں کو منتخب کرتے ہوئے اپنے مسائل کو حل کراسکے۔