میں نے اپنے کالموں، فیس بک اور ٹیوٹر پر ایک بات بکثرت کہی ہے کہ روس ایک زخمی سانپ ہے جس کو سب سے زیادہ اذیت پاکستان نے افغان وار میں پہنچائی تھی لہٰذا یہ بات ہر پاکستانی کو سمجھ لینی چاہیے کہ وہ پاکستان کو ڈس لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔ اگر پاکستان کے حالیہ واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا کسی صورت بے جا نہیں ہوگا کہ موجودہ صورت ِ حال وزیر اعظم پاکستان کے دورۂ روس کے بعد سے شروع ہوئی ہے، کب ختم ہوگی، اس کے متعلق کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
افغانستان کی موجودہ صورت حال سب کے سامنے ہے۔ جو نفرت امریکا کے خلاف افغانستان میں پائی جاتی ہے وہ پاکستان میں پائی جانے والی نفرت سے کئی گنا زیادہ ہے اس لیے یہ بات قرین ِ قیاس ہے کہ روس افغانیوں کو استعمال کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ پاکستان سمیت اس وقت افغانستان کا صحیح معنوں میں ساتھ دینے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ اگر ایسے میں روس اس کی ہمدردی پر اتر آئے تو بعید نہیں کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا سمجھ کر افغانستان روس کو اپنا ان داتا مان لے اور اس بات کو بھول جائے کہ افغانستان کو اس حالت میں پہنچانے کا واحد ذمے دار صرف امریکا ہی نہیں بلکہ اصل ذمے دار روس ہے جس کی مداخلت کی وجہ سے دنیا کے دیگر ممالک کو افغانستان میں مداخلت کرنے کا جواز ملا اور یوں افغانستان کی اصل شکل مسخ ہو کر رہ گئی۔
پاکستان میں اب تک جو کچھ دیکھنے میں آ رہا ہے وہ یہی ہے کہ ہر ادارہ فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لے رہا ہے اور بے نکیل اونٹ کی طرح ہر فرد و بشر اپنی مرضی کے مطابق جو جی چاہے کر رہا ہے۔ اس وقت پوری ریاست کا حال اس گاڑی کا سا ہے جس کا عین تیز رفتاری کے عالم میں ایک جانب بریک فیل ہو گیا ہو تو دوسری جانب اسٹیئرنگ ٹوٹ گیا ہو تو ایسی کیفیت میں گاڑی کو قابو میں رکھنے کی کوئی بھی کوشش کیسے کامیاب ہو سکتی۔ اگر میں یہ کہوں کہ اب کیونکہ اسلام آباد ’’قبلہ‘‘ نہیں رہا بلکہ سارے ’’نمازیوں‘‘ کا رخ راولپنڈی کی جانب مڑ چکا ہے، تو یہ کہنا کسی صورت بے جا نہ ہوگا۔ قانون کو کس بری طرح پامال کیا جا رہا ہے اور اس کو پیروں تلے روندنے والے کون ہیں، یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کو عدالت عظمیٰ نہیں سمجھ سکتی ہو لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر حتمی فیصلہ لکھنے سے پہلے ہر ادارہ مڑ مڑ کے راولپنڈی کی جانب دیکھنے کا اس بری طرح عادی ہو چکا ہے کہ جب تک وہاں سے کوئی واضح اشارہ موصول نہ ہوجائے اس وقت تک کسی بھی فیصلے پر دستخط کرتے ہوئے ذمے داروں کی ٹانگیں کانپنا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ کوئی اتنا بڑا مقدمہ نہیں جس پر ہفتوں لگ جائیں لیکن یہاں ہر فرد کسی نہ کسی کا غلام نظر آتا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ پورے پاکستان کا رخ جس قبلے کی جانب ہے وہ بھی کہیں اور ’’رُخ‘‘ کر کے نمازیں ادا کرنے کا عادی ہے۔ پہلے ہوتا یہ تھا کہ راولپنڈی والوں کا قبلہ ایک ہی ہوا کرتا تھا لیکن اب لگتا ہے ایسا نہیں ہے بلکہ ان میں سے اگر ساروں کے نہیں تو کچھ کے قبلے ضرور دو دو ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ان کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ عین نماز کی حالت میں شمال کی جانب مڑا جائے یا جنوب کی جانب رُخ پھیر لیا جائے۔ وزیر اعظم اور ان کے تمام سہولت کاروں نے اگر اتنا بڑا قدم اٹھایا ہوا ہے کہ ان کے نزدیک آئین اور ریاست کی کوئی اہمیت ہی نہیں اور اس کے باوجود بھی وہ پورے پاکستان میں دوڑتے پھر رہے ہیں لیکن پھر بھی ان کے خلاف کوئی ادارہ حرکت میں آتا دکھائی نہیں دے رہا ہو تو آج تک میں نے ایسی کوئی گائے نہیں دیکھی جو اپنی کھونٹی کے بغیر بھی اینٹھ سکتی ہو۔ دورۂ روس کے بعد اس قسم کے حالات کا اچانک پیدا ہونا میرے ان تمام شکوک و شبہات کو تقویت دیتا ہے کہ جس روس کو میں ہمیشہ زخمی سانپ کہتا رہا تھا اور آگاہ کرتا رہتا تھا کہ وہ ڈس لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا، اس کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں اور مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ یہ سب کچھ روس کے پاکستان میں پاؤں جما لینے کی واضح علامت ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت پاکستان کے نازک حالات پر روس کا وہ بیانیہ ہے جس نے حالات پر اور بھی جلتی کا کام کیا ہے۔
امید ہے کہ خواہ امریکا ہو، روس ہو یا چین، ان سب کے بچھائے جال میں پھنسنے کے بجائے ایسے اقدامات کیے جائیں گے جو پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت میں قائم دائم رکھ سکیں ورنہ آثار تو بہت ہی پر پیچ، خطرناک اور مختلف نظر آ رہے ہیں۔