عدم اعتماد کی تحریک پر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم خاں سوری کی رولنگ پر لیے گئے عدالت عظمیٰ کے از خود نوٹس پر تاریخی فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے منصف اعلیٰ عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین اپریل سے سات اپریل تک مسلسل پانچ روز تک اس اہم قومی مسئلہ پر سماعت کی۔ منصف اعلیٰ کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خلیل اور جسٹس جمال خاں مندوخیل عدالت عظمیٰ کے لارجر بنچ کا حصہ تھے۔ عدالت عظمیٰ کا تفصیلی فیصلہ ابھی بعد میں جاری کیا جانا ہے تاہم جو مختصر فیصلہ سنایا گیا ہے اس میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کئے جانے کی رولنگ کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر کی اس رولنگ کے بعد وزیر اعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کی روشنی میں صدر عارف علوی کے قومی اسمبلی توڑنے کے اقدام کو بھی غیر آئینی قرار دیا گیا ہے اس طرح گویا حکومت اور قومی اسمبلی کی تین اپریل سے پہلے کی حیثیت بحال کر دی گئی ہے اور قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ کو بھی بحال کر دیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بنچ کے متفقہ فیصلے کے مطابق صدر مملکت کی جانب سے نگران حکومت کی تشکیل کے لیے دیئے گئے احکام اور اقدامات بھی کالعدم ہو گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے یہ ہدایت بھی جاری کی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کو آگے بڑھانے کے لیے ہفتہ نو اپریل کو صبح دس بجے قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد کیا جائے جس میں تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کرائی جائے، رائے شماری مکمل ہونے تک اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہ کیا جائے، کسی رکن قومی اسمبلی کو حق رائے دہی کے استعمال سے روکا نہ جائے، تحریک ناکام ہو تو حکومت اپنے فرائض انجام دیتی رہے اور اگر تحریک کامیاب ہو جائے تو نئے وزیر اعظم کے انتخاب کی کارروائی مکمل کی جائے گی اور اس کی تکمیل تک اجلاس جاری رکھا جائے گا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنا محفوظ فیصلہ سنانے سے قبل چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان کو بھی طلب کیا اور از سر نو انتخابات کے حوالے سے استفسار کیا جس پر چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ اگرچہ ہمیں نوے روز میں انتخابات کرانے کے لیے تیار رہنا چاہئے تاہم نئے انتخابات کے لیے از سر نو حلقہ بندی کرنا بھی باقی ہے جس کے لیے الیکشن کمیشن کو چھ سے سات ماہ درکار ہوں گے۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کو متحدہ حزب اختلاف نے اپنی کامیابی سے تعبیر کیا ہے اور اس کے قائدین کے بقول عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے ملک اور آئین دونوں بچ گئے ہیں عدالت نے نظریۂ ضرورت کو دفن کر دیا ہے اور قومی خود مختاری کو چار چاند لگا دیئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے عوام کی دعائیں قبول کیں اب قوم جمہوریت کی جانب پیش قدمی کرے گی۔ وزیر اعظم عمران خاں نے اس کے جواب میں آخری گیند تک مقابلہ کرنے کا عزم دہرایا ہے جب کہ تازہ اطلاعات کے مطابق حکومت نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح حکومت نے ملکی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کے مظہر مراسئلہ پر تحقیقاتی کمیشن کا اعلان بھی کیا ہے جس کے سربراہ کے طور پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خاں کا نام وفاقی وزیر قانون و اطلاعات فواد چودھری صاحب کی جانب سے سامنے لایا گیا تھا یہ الگ بات ہے کہ جنرل (ر) طارق خاں نے یہ ذمہ داری سنبھالنے سے معذرت کر لی ہے اگرچہ انہوں نے اس کی وجوہ ذاتی بتائی ہیں تاہم اس سے یہ بہرحال واضح ہے کہ حکومت یہ اقدام کس قدر جلد بازی میں سوچے سمجھے بغیر اور متعلقہ ذمہ داران کو اعتماد لیے بغیر ہی کرتی چلی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا اور مولانا فضل الرحمن کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے جمعۃ المبارک کے روز ملک بھر میں ’یوم تشکر‘ منانے کا اعلان کیا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ایک پیشہ ورانہ ادارہ ہے جس کا بنیادی کام عدالت اور ماہرین قانون کو درپیش معاملات کو نمٹانا ہے مگر یہ جس طرح مسلسل ملک کے سیاسی نظام میں ایک فریق کے ساتھ نتھی ہو کر رہ گیا ہے اس سے اس ادارہ کا آئینی و قانونی اور غیر جانبدارانہ کردار بری طرح متاثر ہوا ہے بار کے عہدیداروں کو اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کر کے اپنا بنیادی کردار ادا کرنے پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔ عدالت عظمیٰ کی طلبی پر چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے یہ موقف بھی ناقابل فہم ہے کہ ان کا ادارہ نوے روز کے اندر انتخابات کرانے کے لیے تیار نہیں حالانہ آئین اور قانون کے تحت الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی وقت نوے روز کے اندر ملک میں عام انتخابات کرانے کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے عدالت عظمیٰ کے استفسار پر واضح الفاظ میں اپنی نا اہلی کا اعتراف کیا ہے جس کا ازالہ کرنے کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں کیونکہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے باوجود آج بھی حالات کسی بھی وقت ایسا رخ اختیار کر سکتے ہیں کہ ملک میں فوری عام انتخابات کا ڈول ڈالا جا سکتا ہے ایسی کسی ہنگامی صورت حال میں ہمارا الیکشن کمیشن کہاں کھڑا ہو گا؟ جہاں تک عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا تعلق ہے اس سے اگرچہ وقتی طور پر آئینی و قانونی بحران ٹل گیا ہے تاہم سیاسی جماعتوں کے مابین کشیدگی جن انتہائوں کو چھو رہی ہے اس میں اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ فریقین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنی انا کی تسکین کی خاطر کسی بھی وقت ملک کو کسی نئے بحران کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں تمام تر توجہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر مرکوز رکھی ہے اور اسے کالعدم قرار دے کر معاملہ کو از سر نو تین اپریل کی حالت میں واپس بھیج دیا ہے۔ عدالت کے فاضل جج صاحبان کی رائے سر آنکھوں پر مگر کیا عدالت کا اس مراسلہ کو قطعی نظر انداز کر دینا مناسب تھا جس کی بناء پر ایک فریق غداری کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے۔ غداری کا معاملہ نہ بھی ہو تب بھی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ملکی معاملات میں بیرونی قوتوں کی مداخلت کے سنگین الزام کو اس قدر آسانی سے نظر انداز کر دیا جانا، ناقابل فہم ہے۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کا یہ پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ عدالتی حکم میں قومی اسمبلی کے ایوان کو چلانے کے تمام تر اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے گئے ہیں حالانکہ آئین کی رو سے مجلس شوریٰ ملک کا مقتدر ترین ادارہ ہے جس کو چلانے کے تمام تر اختیارات اسپیکر کو حاصل ہیں۔ عدالتی حکم میں یہ اختیارات سلب کر کے اجلاس بلانے کی تاریخ،وقت اور اجلاس کی کارروائی کے ایجنڈا تک کے بارے میں حکم جاری کر دیا گیا ہے۔ تاہم اس ضمن میں پس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مجلس شوریٰ کے اختیارات میں مداخلت کا یہ موقع عدالت عظمیٰ کو سیاستدانوں اور ارکان قومی اسمبلی نے خود ہی دیا ہے جو ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں…!!!