مقدس مہینہ آگیا

432

سال بھر کے بعد پھر وہ مقدس مہینہ آگیا جو قلوب و ارواح کی اصلاح کے لیے مخصوص ہے۔ جو برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہے جس کے دن صلاح و تقویٰ سے معمور اور جس کی راتیں عبادت و بندگی سے پرنور ہوتی ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں دن اور رات آسمانی برکتوں کا نزول ہوتا ہے اور جس میں مغفرت اور بخشش عام کی بارش ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اپنے عصیاں شعار بندوں کے لیے ہر سال ایک ایسا مہینہ بنا دیا ہے جو گیارہ مہینوں کی کثافتوں اور کدورتوں کو دھو دیتا ہے۔ اس ماہِ مقدس کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوسکتا ہے جب ہم اپنی گزشتہ گیارہ مہینوں کی پرمعصیت زندگی پر ایک نگاہ احتساب اور ایک نظر جائزہ ڈالیں اور اپنے اعمال کے ایک ایک گوشے کی تلاشی لیں۔ ہمارے والد محترم پروفیسر الیف الدین ترابی کا یہ معمول رہا کہ جب بھی رمضان المبارک شروع ہوتا، تو شروع سے لے کر چاند رات تک وہ رمضان المبارک کے ماحول میں ڈوبے رہتے تھے، اگر ہم احتساب اعمال کے لیے تیار ہوکر بیٹھ جائیں تو معلوم ہوجائے گا کہ ہماری عملی زندگی کا کوئی گوشہ اور ہمارے دامن حیات کا کوئی تار ایسا نہیں جو معصیت کی آلودگی سے پاک ہو۔ جب ہمیں اپنی زندگی کے دامن پر معصیت کے دھبے نظر آئیں گے تو ہماری روح اور ہمارا قلب ان کی صفائی کے لیے بے چین ہوجائے گا۔ روح کی اس بے چینی کو دورکرنے اور قلب کے اس اضطراب کو دور کرنے کے لیے الرحم الراحمین نے ماہ رمضان مقرر فرمایا ہے اس ماہ مبارک کا آنا خدائے رحمن ورحیم کا کتنا بڑا احسان اپنے بندوں پر ہے۔ جس وقت سے بھی اس ماہ مبارک کا آغاز ہوا اس وقت سے اس کے استقبال و خیر مقدم کا ایک پروگرام مقرر کردیا گیا تھا اور یہ خدائی پروگرام ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ اس میں رتی بھر کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا اور قیامت تک کوئی تغیر نہیں ہوسکتا۔
یہ وہی ماہ مبارک ہے جس میں دنیا کی نجات و ہدایت کے لیے قرآن پاک نازل کیا گیا۔ ایسے برکت و رحمت والے مہینہ کا استقبال کیوں کر نہ کرنا چاہیے اور یہ تمام فضیلت محض اس لیے ہے کہ یہ روزوں کا مہینہ ہے اور روزہ اس قدر عزیز عبادت ہے کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اسے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور اس کی جزا اپنے دست قدرت سے دینے کا وعدہ فرمایا ہے: ارشاد ربانی ہے، ترجمہ: جس طرح تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔ اسی طرح تم سے قبل جو امتیں تھیں ان پر روزہ فرض کیا گیا تھا اور اس کی غرض یہ ہے کہ تم متقی اور پرہیزگار بنو اور تمہارے قلوب و نفوس کا تزکیہ و تصفیہ ہو۔ الغرض اس آیت کریمہ میں بندے کی غایت بیان کردی گئی ہے اور وہ تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔ بشرطیکہ ان شرائط کے ساتھ روزہ رکھا جائے اور وہ شرائط مختصراً یہ ہیںکہ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھا اس کے گزشتہ گناہ معاف ہوجائیں گے۔ گویا شرطیں دو ہیں ایک ایمان اور دوسری احتساب۔ ایمان سے مراد یہ ہے کہ خالص اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور صرف اس کی رضا جوئی اور خوشنودی کے لیے روزہ رکھے۔ یہ نہ ہو کہ نمودو نمائش اور متقی و پرہیزگار مشہور کرنے کے لیے روزہ رکھے اور احتساب سے مراد یہ ہے کہ محض ثواب کے لیے روزہ رکھے اور تمام اعضاء و جوارح کا احتساب کرتا ہے اور تنہا بھوک پیاس کا روزہ نہ ہو بلکہ صحیح معنوں میں روزہ ہو تاکہ روزے کی اصلی غرض یعنی تقویٰ حاصل ہو۔
روزے کی کئی قسمیں ہیں محض کھانے پینے سے باز رہنے سے تقویٰ حاصل نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس کے لیے تمام اعضاء و جوارح کا احتساب کرنا ضروری ہے۔ یعنی زبان بھی روزہ دار ہو، آنکھ بھی روزہ دار ہو، کان بھی روزہ دار ہوں۔ دل بھی روزہ دار ہو اور دماغ بھی روزہ دار ہو۔ آنکھ کا روزہ یہ ہے کہ نامحرم پر بری نیت سے نظر نہ پڑے، کان کا روزہ یہ ہے کہ کذب اور غیبت کی باتیں نہ سنیں بلکہ جو آواز کان میں پڑے وہ اللہ اور اس کے رسول مقبولؐ کی نیک بات ہو۔ زبان کا روزہ یہ ہے کہ کسی کی برائی اور غیبت کا ایک لفظ نہ نکلے۔ کذب بیانی سے پرہیز کرے، کسی کا دل نہ دکھائے، ذکر الٰہی میں مصروف رہے۔ دل کا روزہ یہ ہے کینہ اور بغض سے دل خالی ہو مسلمانوں کی بہی خواہی کے جذبات سے معمور ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کا خوف اس پر طاری ہو اور دماغ کا روزہ یہ ہے کہ کسی کو ستانے کا خیال دل میں نہ لائے۔ بری تدبیریں نہ سوچے ہاتھ کا روزہ یہ ہے کہ کسی پر ظلم نہ کرے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جو غیر مشروع ہو۔ اسی طرح پائوں کا روزہ یہ ہے کہ وہ غلط و گمراہی کی راہ میں نہ اٹھیں اور یہی خواص کا روزہ ہے کہ ان سے سوائے خیر کے کوئی شر کا کام سرزد نہ ہو۔ بلکہ حسنات ہر ایک عضو سے سرزد ہوں اور اسی روزہ پر لعلکم تتقون کا اثر مرتب ہوگا۔ ہم ایک حد تک رمضان المبارک کا ظاہری استقبال تو کرلیتے ہیں۔ مساجد پر سفیدی، بلکہ مسجدوں کی درو دیوار کی صفائی سے پہلے اپنے قلب و روح کی صفائی کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ لہٰذا روزے کے ساتھ قواء ظاہری و باطنی کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور سب کو اللہ کی فرمانبرداری کا سچا مظہر بنا دینا چاہیے۔ غرض رمضان المبارک کا استقبال بیدار دلی اور بیدار دماغی کے ساتھ کرنا چاہیے۔