ملک میں پیدا ہونے والے آئینی‘ سیاسی اور معاشی بحران میں لمحہ بہ لمحہ شدت پیدا ہو رہی ہے اور ملک میں امور حکومت عملاً ٹھپ پڑے ہیں‘ اسٹاک مارکیٹ بھی بیٹھی رہی ہے اور بدترین مندی کی زد میں ہے عوام کے اعصاب شل ہو رہے ہیں اور سب کی نگاہیں عدالت عظمیٰ پر ہیں جہاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے خصوصی بنچ کے روبرو ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کیخلاف ازخود نوٹس کیس اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پیپلز پارٹی کی دائر کردہ آئینی درخواستیں زیرسماعت ہیں فاضل چیف جسٹس نے اپنے 3 اپریل کے فیصلے کے تحت صدر مملکت اور وزیراعظم سمیت تمام اقدامات عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے ساتھ مشروط کر دیے ہیں حکومت اور انتظامی مشینری عضو ِ معطل بن چکی ہے کیونکہ اس کا عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر ہی دارومدار ہے کہ وفاقی حکومت اور قومی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے پہلے والی پوزیشن بحال ہوگی یا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی بنیاد پر وزیراعظم کا قومی اسمبلی توڑنے اور نئے انتخابات کی جانب جانے کا فیصلہ ہی برقرار رہے گا اس صورت میں صدر مملکت کو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کے ساتھ عبوری نگران وزیراعظم کا تقرر کرنا ہے جو اپنی عبوری کابینہ تشکیل دیں گے جبکہ الیکشن کمیشن کو تین ماہ کے اندر اندر عام انتخابات کا انعقاد کرنا ہے نگران وزیراعظم کے لیے وزیراعظم عمران خان کی تجویز پر صدر مملکت نے سابق چیف جسٹس گلزار احمد خان کی نامزدگی کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اس وقت ملک میں بیک وقت کئی قوتیں کام کر رہی ہیں، خبروں کا ایک جال ہے، افوہیں بہت تیزی سے اور منظم انداز میں پھیل رہی ہیں۔ الیکشن کمشنر کی جانب سے یہ بیان نشر اور شائع ہوا کہ کمیشن تین ماہ میں عام انتخابات پیش کرا سکتا لیکن الیکشن کمیشن نے وضاحتی بیان جاری کر کے کہا ہے کہ الیکشن سے متعلق ان کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان نے کہا کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمے داری ہے، ہم ہر وقت تیار ہیں، الیکشن کمیشن آئین اور قانون کے مطابق اپنی ذمے داری پوری کرے گا۔ یہ سماعت ایک دلچسپ اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے ازخود نوٹس کیس میں صدر مملکت کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے بھی نئے الیکشن کی تجویز دے دی اور کہا آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے عدالت اس کو پھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ صدر مملکت کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے ایک نیا نکتہ اٹھادیا کہ صدر مملکت کے اقدام کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا، اس معاملے کا حل نئے الیکشن ہی ہیں، آرٹیکل 69عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے، ہمارا آئین پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ایک حد قائم کرتا ہے، اگر اس حد کو پارکیا جائے تو تباہی ہوگی اور عوام متاثر ہوں گے، پارلیمنٹ عدالت کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرتی، عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جہاں آئین کی خلاف ورزی ہو وہاں بھی مداخلت نہیں کی جاسکتی؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ پروسیجر اور آئینی خلاف ورزی میں فرق کرنا پڑے گا، ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کی خلاف عدالت سے رجوع پارلیمنٹ میں مداخلت ہے، اسپیکر کو ہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دینا ہوگا جو غیرآئینی ہے۔ جسٹس عطا بندیال نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہوسکتی؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ کیا غیرآئینی ہے اور کیا نہیں اس پر بعد میں دلائل دوں گا، گزشتہ سماعت میں اپوزیشن جماعتوں اور بار کونسلوں کے دلائل مکمل ہو گئے تھے، تحریک ِ انصاف کے وکیل بابر اعوان، وزیرِ اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز رشید صدیقی، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے وکیل نعیم بخاری اور اٹارنی جنرل کے دلائل ابھی باقی ہیں، مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت عظمیٰ سے پنجاب اسمبلی کے اجلاس سے متعلق حکم امتناع مانگا، پیپلزپارٹی نے استدعا کی کہ فل کورٹ بنچ بنایا جائے دونوں درخواستیں شنوائی کا درجہ نہ پاسکیں اسی طرح تحریک انصاف نے ان کیمرہ دلائل اور سماعت کے لیے درخواست کی یہ استدعا بھی تسلیم نہیں کی گئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ ریمارکس دے کرکہ انتہائی اہم نوعیت کا کیس زیر سماعت ہے، 3 اپریل کو قومی اسمبلی میں جو ہوا اس پر سماعت پہلے ختم کرنا چاہتے ہیں، مسلم لیگ(ن) کی کوشش مسدود کردی، چیف جسٹس نے واضح کیا کہ عدالت وفاداریوں کی بنیاد پر نہیں، آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دے گی، عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات عدالت عظمیٰ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے۔ بابر اعوان نے یہ بھی سوال کیا کہ کیا آئین پاکستان کا موازنہ بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ کے آئین سے کیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح بابر اعوان نے سوال کیا کہ کیا سندھ ہائوس، لاہور کے ہوٹل میں جو ہوا اسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ اراکین کے کردار پر قرآن و سنت، مفتی تقی عثمانی کا نوٹ بھی دوں گا، اسپیکر کی رولنگ پر نعیم بخاری دلائل دیں گے۔
اس وقت اپوزیشن اور حکومتی جماعتیں جارحانہ انداز اختیار کرتی نظر آرہی ہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی اور بلیم گیم کا سلسلہ شدت اور سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف‘ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری‘ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور دوسرے اپوزیشن قائدین ریاستی اداروں سے یہ استفسار کرتے نظر آتے رہے کہ آیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی بنیاد پر اپوزیشن کے 197 ارکان قومی اسمبلی اور اپوزیشن کی تمام لیڈر شپ کو ملک کا غدار قرار دے دیا گیا ہے؟ وہ صدر‘ وزیراعظم اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی پر آئین شکنی کا الزام عائد کر رہے ہیں اور عدالت عظمیٰ سے اپیل کی کہ وہ عمران خان کے مارشل لا کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے عدالت ِ عظمیٰ کی سماعت سے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن موجودہ صورت حال پر امیر جماعت اسلامی پاکستان کا کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ: عدالت عظمیٰ موجودہ بدترین سیاسی بحران میں آئین کی بالادستی کے قیام کو ممکن بنائے۔ ملک تاریخ کے بدترین سیاسی، آئینی اور معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات نہ ہوئے تو مزید انارکی پھیلے گی اور طالع آزمائوں کو موقع ملے گا۔ پوری ریاست دائو پر لگی ہوئی ہے، عوام کنفیوژن میں مبتلا اور تمام نظریں عدالت عظمیٰ پر ہیں۔ حیرانی ہے کہ پی ٹی آئی اپنی ہی حکومت کے خاتمے پر جشن منا رہی ہے۔ اسلام آباد میں مہینہ بھر مفادات کا کھیل جاری رہا۔ قوم کو جاننا چاہیے کہ کن لوگوں نے پورے سیاسی نظام اور ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ حکمران اشرافیہ حکومت کرنا ذمے داری نہیں انجوائے منٹ سمجھتی ہے۔ ملک پر مسلط حکمران اپنے آپ کو سیاسی برہمن اور عوام کو شودر سمجھتے ہیں۔ تینوں بڑی سیاسی پارٹیاں ملک میں اسلامی نظام کے بجائے ذاتی بادشاہتیں قائم کرنا چاہتی ہیں۔ جماعت اسلامی نے ایک بار نہیں بار بار امریکی مداخلت کی مذمت کی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے حکمران غیر ملکی طاقتوں کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے اصل ذمے دار ہیں۔