ووٹنگ سے قبل وہ ہوا جس کی مثال نہیں ملتی،چیف جسٹس

429

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد پرووٹنگ سے قبل وہ ہوا جس کی مثال نہیں ملتی، بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے جا رہی تھی لیکن جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آ گئی،ڈپٹی اسپیکررولنگ میں بظاہرالزامات ہیں ، کوئی فائنڈنگ نہیں، ڈپٹی اسپیکر رولنگ نے نئی روایت قائم کی اور ایک نیا راستہ کھول دیا، اگر اسے ہونے دیا گیا توبہت منفی اثرات ہوسکتے ہیں، جہاں آئین کی خلاف ورزی ہووہاں عدالت عظمیٰ مداخلت کرسکتی ہے، وہ فیصلہ دیں گے جو قوم کے مفاد میں ہوگا۔بدھ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 5رکنی لارجر بینچ نے اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ فیصلہ نہیں کر رہی،یک طرفہ فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟۔جسٹس عمر عطابندیال نے تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان سے استفسارکیا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے منٹس کہاںہیں؟ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں، کیا اسپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اس طرح کی رولنگ دے سکتا ہے؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت کوفیصلہ دینا ہے، کیا اسپیکر آرٹیکل 95 سے باہر جا کر ایسی رولنگ سے سکتا ہے جو ایجنڈے پر نہیں، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں نتیجہ اخذ کیا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے کس مواد پر اختیار استعمال کیا، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا اسپیکر کو اختیار ہے کہ وہ ہاؤس میں ایجنڈے سے ہٹ کر کسی فیکٹس پر جا سکے، اگر ایسا کوئی مٹیریل موجود ہے؟ ایک آئینی طریقہ ہے جس کو بالکل سائیڈ لائن کر دیا جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ آپ نے یہ بھی بتانا ہے، فیصلہ کرنے سے پہلے جاننا چاہتے ہیں کہ سازش کیا ہے جس کی بنیاد پر رولنگ دی گئی۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہخارجہ پالیسی کا معاملہ ہے، میں چاہتا ہوں کہ یہ بات ایک سیاسی پارٹی کی جانب سے نہ آئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا نکتہ بھی صحیح ہے، ہم بھی خارجہ پالیسی کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتے۔بابر اعوان نے درخواست کی کہ کیا کچھ باتیں ان کیمرا ہو سکتی ہیں؟ دفترخارجہ نے جو بریفنگ دی وہ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ عدالت نے بابر اعوان کی ان کیمرا بریفنگ کی استدعا مسترد کردی۔وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ مراسلے میں 4چیزیں سامنے آئیں، فارن آفس نے مراسلہ دیکھ کر وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے ساتھ میٹنگ کی، میں بات اشاروں میں بتا رہا ہوں، فلاں فلاں مسئلے پر وہ ملک اس ملک کے وزیراعظم سے ناراض ہے، تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب نہ ہوئی تو پھر ڈیش ڈیش ہے، اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو پھر سب ٹھیک ہے، 8مارچ کو تحریک عدم اعتماد آ جاتی ہے جس کا ذکر کہیں اور سے آیا۔بابر اعوان نے ترجمان پاک فوج کی نجی ٹی وی سے گفتگو بھی عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ترجمان پاک فوج نے کہا قومی سلامتی کمیٹی میٹنگ کے اعلامیہ سے متفق ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کابینہ نے وزارت خارجہ کی بریفنگ پر کیا فیصلہ کیا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ جن پر الزام لگایا گیا ان کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟۔ بابر اعوان نے جواب دیا کہ حکومت نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، وزیراعظم اور کابینہ نے احتیاط سے کام لیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر عمران خان کمیشن بنانا چاہتے ہیں تو مطلب ہوا کہ انہیں معلوم نہیں کون ملوث ہے؟۔ بابر اعوان نے جواب دیا کہ وزیراعظم کو جو علم ہے وہ ملکی مفاد میں بولنا نہیں چاہتے، وزیراعظم تفتیش کار نہیں اس لئے یہ کام متعلقہ لوگوں کو کرنے دیا جائے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا تحریک عدم اعتماد کو ووٹنگ کے علاوہ بھی نمٹایا جا سکتا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کو پیش کرنے کی منظوری سے پہلے نمٹایا جا سکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فلور کراسنگ ہر جماعت کے ساتھ ہوتی رہی ہے، سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ لوگ انہیں کیوں چھوڑ کر جاتے ہیں، وہی چہرے ہر بار ایک سے دوسری جگہ نظر آتے ہیں۔بابر اعوان کے بعد صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کردیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہوسکتی؟۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ عدالت کو اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔جسٹس جمال خان نے پوچھا کہ اسپیکر کی رولنگ کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ اسپیکر کی رولنگ کو ہاؤس ختم کرسکتا ہے۔بینچ کے سربراہ نے کہا کہ آپ کا نکتہ دلچسپ ہے کہ اسپیکر کی رولنگ غلط ہو تو بھی اسے استحقاق ہے، رولنگ کے بعد اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات اور عوام کے پاس جانے کا اعلان کیا گیا ہے، ن لیگ کے وکیل سے پوچھیں گے عوام کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی کہا کہ الیکشن میں جانے سے کسی کے حقوق کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کے تقدس کا احترام کرتے ہیں لیکن جہاں آئین کی خلاف ورزی ہو عدالت عظمیٰ مداخلت کر سکتی ہے۔عدالت عظمیٰ میں پنجاب اسمبلی اجلاس کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ سیکرٹری پنجاب اسمبلی کے وکیل نے بتایا کہ اسمبلی میں کافی توڑ پھوڑ ہوئی تھی اس لیے اجلاس 16 اپریل تک ملتوی ہوا، ڈپٹی اسپیکر آج صبح سے غائب ہیں ان سے رابطہ نہیں ہو رہا، آج شام ہونے والا اجلاس کا نوٹیفکیشن جعلی ہے۔ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ حکومت کے پاس اکثریت نہیں ہے اس لیے الیکشن نہیں ہونے دیا جا رہا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دییکہ سسٹم تعاون نہ کر رہا ہو تو آئینی عہدیدار اختیار استعمال کرسکتے ہیں، ڈپٹی اسپیکر چاہیں تو اجلاس باغ جناح میں بھی بلاسکتے ہیں، پنجاب میں آئیڈیل حالات ہیں کہ عوام سے رجوع کیا جائے۔سماعت آج پھر ہوگی۔