آئین توڑنا سرپرائز نہیں غداری ہے،، بلاول زر داری 

195
عمران خان نےریاست مدینہ کا نام استعمال کرکے ملک  تباہ کیا، بلاول

اسلام آباد: پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئین توڑنا سرپرائز نہیں غداری ہے، آئین شکنی کوئی مذاق نہیں، عمران خان پارلیمان کے ستر فیصد 197اراکین کو غدار کہہ رہے ہیں، بہت ضروری ہے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک دوسرے افراد کا مؤقف بھی سامنے آئے، عمران خان کی جانب سے قومی سلامتی کمیٹی کو اپنی سیاست کیلئے استعمال کر نے کی کوشش کرنا افسوس ناک ہے، ہم صاف و شفاف انتخابات کے لیے تیار ہیں ،اگر ہم آئین شکنی کر کے انتخابات کی جانب بڑھے تو کوئی صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد پر یقین نہیں کرے گا۔ بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویومیں بلاول بھٹوزر داری نے کہاکہ انھوں نے پاکستانی فوج سے وضاحت کا مطالبہ اس لیے کیا تاکہ ادارے اپنا موقف واضح کریں اور بتائیں کہ کیا قومی سلامتی کے اجلاس میں 197 اراکین کو غدار قرار دیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ اس اجلاس کے میٹنگ منٹس موجود ہوں گے یا وہ ادارے خود بھی اس حوالے وضاحت دے سکتے ہیں کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں زیر بحث آنے والے دھمکی آمیز خط کے معاملے میں حقیقت کیا ہے۔انہوںنے کہاکہ قومی سلامتی کے اجلاس کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں کسی بیرونی سازش کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، اس اعلامیہ میں غیر سفارتی زبان اور ملک کے اندرونی معاملات میں غیر ضروری مداخلت کا ذکر ہوا تو یہ معاملہ ناصرف عوام بلکہ عدلیہ کے سامنے واضح ہونا بہت ہی ضروری ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ عمران خان نے اس غیر سیاسی فورم (قومی سلامتی کمیٹی) کو اپنی سیاست کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جو افسوسناک ہے۔

انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم عمران خان نے اس بہانے کو استعمال کرتے ہوئے آئین شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں اور تحریک عدم اعتماد سے بھاگے ہیں۔جو کچھ پارلیمان میں ہوا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس کو واپس کیے بغیر انتخابات میں کیا حرج ہے؟بلاول بھٹو کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ہم تو بہت عرصے سے وزیر اعظم عمران خان کی سلیکٹڈ حکومت کو ختم کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے کیونکہ ان کی حکومت کے نتیجے میں ملک میں ایک معاشی بحران پیدا ہوا اور ہر پاکستانی بیروزگاری، غربت اور مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم نے اس حکومت کے خلاف ڈٹ کے تین سال مقابلہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ہم نے اس حکومت کے خلاف نہ صرف پارلیمان کے باہر بلکہ پارلیمان کے اندر بھی مقابلہ کرنا ہے اور عدم اعتماد لا کر ان کی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے۔بلاول بھٹو زر داری نے کہاکہ اس اقدام سے ہم نے اْن کی حکومت کا خاتمہ کر دیاتو اگر ہم عام اپوزیشن کی سیاست کر رہے ہوتے تو ہمیں اس بات پر ہی خوش ہو جانا چاہیے تھا لیکن ہم چاہتے تھے کہ ایک آئینی طریقے سے حکومت کا خاتمہ ہو اور ہم جمہوری طریقے سے ایک صاف و شفاف انتخابات کی جانب بڑھیں۔

انہوںنے کہاکہ تین اپریل کو جو اقدام وزیر اعظم نے کیا ہے وہ ایک غیر آئینی طریقے سے کی جانے والی بغاوت ہے تاکہ وہ تین چار دن کے لیے مزید وزیر اعظم رہ سکیں۔ایک سوال کے جواب میں پیپلز پارٹی کے چیئرپر مین بلاول بھٹو نے کہا کہ عمران خان اگر وہ کوئی غیر آئینی یا غیر جمہوری قدم اٹھائیں تو یہ ان کے لیے کوئی غیر متوقع بات نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت جس کو سرپرائز کہہ رہی ہے وہ آئین شکنی ہے اور آپ آئین شکنی کو سرپرائز نہیں کہہ سکتے۔انہوںنے کہاکہ آئین توڑنا کوئی مذاق نہیں ہے، یہ غداری کا جرم ہے اور آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی ہے۔بلاول کا کہنا تھا کہ حکومتی اقدام اور پرامن انتقال اقتدار میں وزیر اعظم کی مداخلت پر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عمران خان کا ’کو‘ یعنی بغاوت ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم اعلیٰ عدلیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ ہم شاید جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی فوجی بغاوت کو نہیں روک سکے وہ عمران خان کی اس بغاوت کو رکوا دے انہوںنے کہاکہ ہم صاف و شفاف انتخابات کے لیے تیار ہیں لیکن اگر ہم آئین شکنی کر کے انتخابات کی جانب بڑھے تو کوئی صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد پر یقین نہیں کرے گا۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے ملکی سیاست کو 90 کی دہائی میں واپس دھکیل دیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ آج کا پاکستان نوے کی دہائی والا پاکستان نہیں ہے،عمران خان کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ اس کے دور رس نتائج کتنے سنگین ہیں۔

انہوںنے کہاکہ وہ آج بھی جشن منا رہے ہیں جب ہم نے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا اور وہ اس دن بھی ایوان کا میز بجا کر جشن منا رہے تھے جس دن میں نے انھیں سلیکٹیڈ قرار دیا تھا۔ انھیں سلیکٹیڈ کا مطلب سمجھنے میں وقت لگا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ آج وہ (عمران خان) جشن منا رہے ہیں کل انھیں پتا لگے گا کہ ہم نے ان کی حکومت گرا دی ہے لیکن ہم آئین اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے یہ سمجھتے تھے کہ اگر عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنا تھا تو یہ جمہوری طریقے سے ہوتا۔