اسلام آباد (آن لائن) عدالت عظمیٰ میں جسٹس مقبول باقر کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ جسٹس مقبول باقر کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔ جسٹس مقبول باقر نے بہت سے اچھے فیصلے دیے عدلیہ کے وقار پر سمجھوتا نہیں کیا۔آمریت کے دور میں جسٹس مقبول باقر نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے کی پاداش میں 21 ماہ کی معطلی برداشت کی۔جسٹس مقبول باقر کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ جسٹس مقبول باقر کا عدالتی کیریئر شاندار رہا،2007 میں پی سی او کے دوران جسٹس مقبول باقر کے کردار کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی، 2007 ء کو امر کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ نہ صرف اسکی آئین شکنی واپس ہوگی بلکہ سزا بھی بھگتنی پڑے گی،آج کل سیاسی مخالفین کے خلاف آرٹیکل 6 کو آسانی سے استعمال کیا جارہا ہے،آرٹیکل 6 کو سمجھنے کے لیے 2007ء کے واقعے کو ذہن نشین کرنا ہوگا، آئین کے آرٹیکلز کا مقصد کسی کی ملک سے وفاداری جانچنے کے لیے نہیں ہے،جسٹس مقبول باقر کو 2007ء کے واقعے کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی تھی،اس ریفرنس کے بعد مستعفی ہونے کا ارادہ رکھتا تھا، موجودہ حالات میں استعفے کا مطلب میدان چھوڑنے کے مترادف تھا۔ جسٹس مقبول باقر نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ انصاف تک رسائی بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی،2007ء کی ایمرجنسی کے دوران چیف جسٹس کو ہٹانے کے واقعے کا گواہ ہوں، سمجھا ہوں کہ تمام تر کوششوں کے باوجود عدلیہ سائلین کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی،آئینی ذمے داری کے دوران سیاسی اور سماجی وابستگیاں آڑے نہیں آنی چاہییں۔تقریب سے وائس چیئرمین پاکستان بار حفیظ الرحمن چوہدری و دیگر نے بھی خطاب کیا۔