رمضان المبارک کی آمد اور ذخیرہ اندوزی

466

اسلام دینِ فطرت ہے، اسلامی تعلیمات کی روح یہ ہے کہ کاروبار فطری انداز سے جاری رہے، طلب اور رَسَد میں توازن رہے۔ لہٰذا اگر مارکیٹ میں غلہ وافر مقدار میں موجود ہے تو خرید کر اسٹاک کرنا منع نہیں ہے، کیونکہ تجارتی منصوبہ بندی اسی طریقے سے ہوتی ہے۔ لیکن اگر کبھی ایسے حالات پیداہوجائیں کہ اشیائے صرف میں سے کسی چیز کی پیداوار ملکی ضرورت سے کم ہو یا قومی اور بین الاقوامی طور پر طلب کے مقابلے میں رَسَد کم ہوگئی ہے، تو ایسے حالات میں کوئی سرمایہ دار یا کاروبار ی شخص مارکیٹ سے اُس مال کو خرید کر ذخیرہ کرلیتا ہے یا یہ مال پہلے سے اُس کے گوداموں میں موجود ہے، لیکن شدید طلب کے باوجودوہ اِسے روکے رکھتا ہے اور مارکیٹ میں سپلائی نہیں کرتا کہ طلب بڑھے اور لوگ مجبور اً بنیادی ضرورت کی اشیاء کاروبار کے فطری اصول کے خلاف انتہائی مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوجائیں، تو یہ احتکار (Hoarding) ہے، ذخیرہ اندوزی ہے اور یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں، جو شقی القلب ہوں، سنگ دل ہوں، استحصالی مزاج رکھتے ہوں اور لوگوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاکر اپنی تجوریاں بھررہے ہوں، لہٰذا یہ عمل اور یہ طرزِ فکر غیر اسلامی اورغیر انسانی ہے، اسی لیے ذخیرہ اندوز کو حدیث پاک میں خطاکار اور ملعون فرمایا گیا ہے اور اس کے لیے بڑی وعید آئی ہے، احادیث ِ مبارکہ میں ہے:
’’ رسول اللہؐ نے فرمایا: ذخیرہ اندوزی صرف گنہگار شخص کرتا ہے، (مسلم)‘‘۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: ’’اہلِ علم کے نزدیک عمل اس پر ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں ذخیرہ اندوزی مکروہ ہے اور بعض علماء نے غیر طعام میں ذخیرہ اندوزی کی رخصت دی ہے اور عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں: کپاس اور بکری کی کھال اور اِس کی مثل دوسری چیزوں کی ذخیرہ اندوزی میں حرج نہیں ہے، (ترمذی)‘‘۔ ’’رسول اللہؐ نے فرمایا: تاجر خوش بخت ہے اور ذخیرہ اندوز ملعون ہے، (سُنن ابن ماجہ)‘‘۔ ’’آپؐ نے فرمایا: جس شخص نے مسلمانوں پر ذخیرہ اندوزی کی اللہ تعالیٰ اُس پر جذام (کوڑھ ) اور افلاس کو مسلّط فرمادے گا، ( ابن ماجہ)‘‘۔
بعض لوگ اس طرح کی احادیث سن کر طنز کرتے ہیں کہ ذخیرہ اندوز اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والے خوش وخرم رہتے ہیں، انہیں تو کچھ نہیں ہوتا، ان کی خدمت میں عرض ہے: ’’یہ اللہ کی مشیت پر منحصر ہے کہ کسی کو اس دنیا میں سزادے یا اس کو ڈھیل دے اور مہلت کی رسی دراز کرے، نیز یہ کہ آپ نے ایسے کئی اشخاص دیکھے ہوں گے کہ دنیا کی ساری نعمتیں ان کی دسترس میں ہیں، مگر مختلف عوارض کی وجہ سے وہ ان سے استفادہ نہیں کرسکتے، کیا یہ آزار کم ہے کہ دنیا کی مَن پسند نعمتیں دسترخوان پر سجی ہوں، دل میں اُن کی چاہت موجود ہو، لیکن اُن سے لطف اندوز نہ ہوسکیں۔
ہر انسان فطری طور پر دولت سے محبت کرتا ہے، مستقبل کے لیے کچھ پس انداز کر کے رکھنا شرعاً درست ہے، صدقات وعطیات کے علاوہ اپنے مال سے انفاق فی سبیل اللہ کرکے بڑا اجر وثواب کماتا ہے اور جو دولت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی جائے، اللہ تعالیٰ اُس کا اجر کئی سو گُنا بڑھا کر عطا فرماتا ہے، سورۂ بقرہ کی آیات 261 تا 266 میں صدقہ وخیرات کی ترغیب دلائی گئی ہے، ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے، جس نے سات ایسے خوشے اُگائے کہ ہر خوشے میں سودانے ہیں اور اللہ جس کے لیے چاہے ان کو دگنا کردیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا بہت علم والا ہے، (البقرہ: 261)‘‘۔ صحابہ کرام، جو ایثار ووفا کا پیکر تھے اور راہِ خدا میں اپنا مال دریا دلی کے ساتھ خرچ کرتے تھے، ان آیاتِ قرآنی کی عملی تفسیر ہیں۔
’’سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں : سیدنا ابو بکرؓ کے دورِ خلافت میں (مدینہ میں) قحط پڑا، سیدنا ابو بکرؓ نے فرمایا: تم صبح نہیں کروگے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تم پر (رزق) کشادہ فرمادے گا، اگلے دن صبح یہ خبر ملی کہ سیدنا عثمان نے ایک ہزاراونٹ گندم اور اشیائے خوراک کے منگوائے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: مدینے کے تاجر سیدنا عثمان کے پاس گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، آپ گھر سے باہر تشریف لائے، اس حال میں کہ چادر آپ کے کاندھوں پر تھی اور اُس کے دونوں سرے مخالف سمت میں کاندھے پر ڈالے ہوئے تھے۔ آپ نے مدینے کے تاجروں سے پوچھا کہ تم لوگ کس لیے آئے ہو، کہنے لگے: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے پاس ایک ہزار اونٹ غلے کے آئے ہیں، آپ اُنہیں ہمارے ہاتھ فروخت کردیجیے تاکہ ہم مدینے کے ضرورت مند لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرسکیں، آپ نے فرمایا: اندر آؤ، پس وہ اندر داخل ہوئے، تو سیدنا عثمان کے گھر میں ایک ہزاربوریاں رکھی ہوئی تھیں، انہوں نے کہا: اگر میں تمہارے ہاتھ فروخت کروں، تم مجھے کتنا نفع دوگے، تاجروں نے کہا: زیادہ سے زیادہ دس پر پندرہ یعنی پچاس فی صد تک نفع دیں گے، انہوں نے فرمایا: مجھے اس سے زیادہ مل رہا ہے، تاجروں نے کہا: مدینے کے تاجروں میں ایسا کوئی نہیں جو اس سے زیادہ نفع دے سکے، پھر سیدنا عثمان نے فرمایا: اے تاجرو! تم گواہ ہوجاؤ کہ یہ تمام مال میں نے مدینہ کے فقراء پر صدقہ کردیا۔ سیدنا عبداللہ فرماتے ہیں: رات گزری، رسول اللہؐ میرے خواب میں تشریف لائے، آپؐ سیاہی مائل سفید سواری پر تشریف فرماتھے، آپ جلدی میں تھے اور آپ کے دست مبارک میں ایک قندیل تھی جس سے روشنی نور کی طرح پھوٹ رہی تھی، نعلین مبارک کے تسموں سے نور پھوٹ رہا تھا۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! میری رغبت آپؐ کی جانب بڑھ رہی ہے، آپؐ نے ارشاد فرمایا: یہ عثمان کی اُس نیکی کا بدلہ ہے، جو اُس نے ایک ہزار اونٹ اللہ کی راہ میں صدقہ کیے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا، (اِزَالَۃُ الْخِفَالِلشَّاہ وَلِیُّ اللّٰہ دہلوی)‘‘۔
علامہ محی الدین یحییٰ بن شرَف نوَوِی لکھتے ہیں: ’’علماء نے کہا ہے کہ احتکار کی ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ عام لوگوں سے ضرر کو دورکیا جائے اور علماء کا اِس پر اجماع ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس اشیائے خوراک ہوں اور لوگوں کو اس طعام کی سخت ضرورت ہو اور اس کے علاوہ کہیں سے نہ ملے، تو لوگوں کو ضرر سے بچانے کے لیے اس شخص کو طعام فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے گا، (مسلم)‘‘۔ جان بچانے والی ادویات کی ذخیرہ اندوزی سے بھی اجتناب کیا جائے۔
علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ’’ذخیرہ اندوزی مکروہ ہے اور یہ اس صورت میں کہ (کوئی شخص) غلّہ (کھانے پینے کی اشیاء) شہر میں خریدے اور اُن کو فروخت سے روک رکھے تاکہ لوگوں پر تنگی آجائے، جیسا کہ ’’الحاوی للفتاوی‘‘ میں ہے اور اگر (صورتِ حال ایسی ہوکہ) شہر میں خرید کر روک لیا اور اس سے لوگوں پر تنگی نہیں ہوتی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ ’’فتاویٰ تاتار خانیہ‘‘ نے ’’تجنیس‘‘ سے نقل کیا ہے اور جب شہر کے قریب ہی کسی مقام سے خریدا اور اٹھا کر شہر تک لایا اور (فروخت سے) روکے رکھا، اگر اہلِ شہر کے لیے اس سے تنگی ہوتی ہو، تویہ مکروہ ہے، یہ قول امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کا ہے اور امام ابو یوسفؒ سے دو روایتوں میں سے ایک روایت میں یہی منقول ہے اور یہی مختار قول ہے، اسی طرح ’’غیاثیہ‘‘ میں ہے، یہی صحیح ہے، اسی طرح ’’جَوَاہِرُ الْاَخْلَاطِیْ ‘‘ میں بھی ہے، پس اگر کسی دور کے مقام سے اناج خرید کرلایا اور (شہر میں) ذخیرہ کیا تو یہ منع نہیں ہے، جیسا کہ ’’تتار خانیہ‘‘ میں ہے اور اگر کھانے پینے کی چیزیں شہر میں خریدیں اور اُنہیں دوسرے شہر لے گیا اور وہاں ذخیرہ کیا تو اس میں کراہت نہیں ہے، جیسا کہ ’’محیط‘‘ میں ہے، (عالمگیری)‘‘۔
علامہ علا الدین حصکفی نے لکھا ہے: ’’حاکم ذخیرہ اندوز کو تعزیرًا سزا بھی دے سکتا ہے اور اس کے مال کو زبردستی فروخت بھی کرسکتا ہے‘‘، علامہ ابن عابدین شامی اس کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’کھانے پینے کی چیزوں کو مہنگائی کے انتظار میں چالیس دن تک ذخیرہ کرنا شرعاً احتکار ہے، کیونکہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جس شخص نے مسلمانوں پر چالیس دن ذخیرہ اندوزی کی، اللہ تعالیٰ اُس پر جذام (کوڑھ) اور اِفلاس کو مسلّط کردے گا، ایک روایت میں ہے: ’’وہ اللہ تعالیٰ سے بری ہوگیا اور اللہ تعالیٰ اُس سے بیزار ہوگیا ‘‘، کفایہ میں ہے: ’’یعنی رسوائی اُس پر مسلط کردی جائے گی اور ضرورت کے وقت اُس کی مدد نہیں کی جائے گی‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ہے: ’’اُس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہو، اللہ تعالیٰ نہ اس کا فرض قبو ل فرمائے گا اورنہ نفل، (رَدُّالْمُحْتَارِ عَلَی الدُّرِّالْمُخْتَار)‘‘۔
ہماری قومی تاریخ میں 1965کی جنگ کا دور مثالی تھا: نہ تاجروں نے ذخیرہ اندوزی کی، نہ لوگوں نے اشیائے ضرورت جمع کرنے کے لیے دکانوں پر یلغار کی، نہ سراسیمگی پھیلی، نہ گھبراہٹ طاری ہوئی، نہ لوگ شہروں کو چھوڑ کر بھاگنے لگے، ہر چیز معمول کے مطابق تھی، اس دور میں حبُّ الوطنی کا جذبہ واقعی عروج پر تھا۔ اب معاشی حالات اس دورکے مقابلے بہت بہتر ہیں، لیکن نجانے ہمیں کیا ہوگیا ہے، حرص وہوس، جلبِ منفعت، طلبِ زر، نفع اندوزی اور نفسانیت ہمارے مزاج پر غالب آگئی ہے، حالانکہ ایسے مواقع پر تو دنیا کے نفعِ عاجل پر آخرت کی ابدی اور دائمی رحمتوں، رافتوں اور نعمتوں کو ترجیح دینی چاہیے، کاش! ہماری چشمِ بصیرت وا ہوجائے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ سینوں میں (دھڑکنے والے) دل اندھے ہوجاتے ہیں، (الحج: 46)‘‘۔ نیز فرمایا: ’’اور جس نے میرے ذکر سے منہ موڑا تو یقینا اس کی زندگی بہت تنگ ہوگی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے، وہ کہے گا: اے میرے رب! تونے مجھے اندھاکرکے کیوں اٹھایا، حالانکہ میں تو (دنیا میں) بینا تھا، اللہ فرمائے گا: تونے بھی تو ایسا ہی کیا تھا، تیرے پاس میری نشانیاں آئی تھیں، تونے ان کو نظر انداز کردیا تھا، اسی طرح آج تجھے بھی نظر انداز کردیا جائے گا، (طٰہٰ: 124-126)‘‘۔