خدا جانے عمران خان کو قوم کا نجات دہندہ سمجھنے والوں کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ جو شخص کرکٹ ٹیم کا کپتان بن کر خود کو شہنشاہ معظم سمجھتا ہو اپنے ساتھی کھلاڑیوں کو خانہ زاد سمجھتا ہو پاکستان کا وزیراعظم بن کر قوم کا کیا حال کرے گا۔ شنید ہے کہ موصوف کھیل کے دوران اپنے ساتھیوں سے جو سلوک روا رکھتے تھے اس کی توقع کسی نارمل انسان سے نہیں کی جاتی۔ خان صاحب کو پاکستان کا وزیراعظم تو بنا دیا گیا مگر وہ تحریک انصاف کے وزیر اعظم بن کر رہ گئے حالانکہ وہ پوری قوم کے وزیراعظم ہیں اور حزب اختلاف بھی قوم کا حصہ ہے اور اس کی جڑیں بھی عوام میں ہیں یہ کیسی بد نصیبی کہ خان صاحب نے اپنے مخالفین کو اپنا ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بھی دشمن قرار دے دیا کیا یہ انہونی نہیں کہ موصوف چار سال سے اپنے مخالفین کو رسوا کرنے اور انہیں ملک دشمن ثابت کرنے کے لیے اپنی ذہنی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں۔ عمران خان نے غیر جانب داری کو حیوانیت کا مظہر قرار دیا غیر جانب دار ہونا انسان کا ایک ایسا وصف ہے جو اسے پارسا اور باکردار ہونے کا سبب بنتا ہے ادارے غیر جانبدار ہیں تبھی ملک ترقی کرتا ہے کوئی انتظامی ادارہ ہو یا جمہوری، قواعد و ضوابط کی پابندی ہی اسے نیک نام بناتی ہے جو ادارے قواعد وضوابط کی پابندی نہیں کرتے جانبدار کہلاتے ہیں ان کی کارکردگی مشکوک ہی نہیں ہوتی بددیانتی کا مظہر بھی ہوتی ہے۔
عوام کی اکثریت نیب کو کڈنیپنگ کا ادارہ سمجھتی رہی ہے اور براڈ شیٹ کے سربراہ کاوے موسوی نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پر عائد الزامات کی معذرت کر کے عوام کے خیالات کی تائید کر دی ہے موصوف کا کہنا ہے کہ حکومت نے نیب کے ادارے کو سیاسی انتقام کا ذریعہ بنایا ہوا ہے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سابق وزیراعظم کے لندن میں اثاثوں سے متعلق نیب نے غلط معلومات فراہم کیں موصوف نے دو دہائیوں تک میاں نواز شریف کو احتساب کے نام پر ہدف بنانے پر معذرت طلب کی براڈ شیٹ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے ہر معاملے میں عوام سے جھوٹ بولا اور نواز لیگ کے راہنمائوں پر جعلی مقدمات بنائے انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ سابق وزراعظم نواز شریف سے کبھی ملاقات نہیں کی۔
اثار وقرائن بتا رہے ہیں کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کے مقدمات کی نظر ثانی ہو سکتی ہے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا بھی امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ان حالات میں ہمیں وہ فرانسیسی لڑکی یاد آنے لگتی ہے جو انگریزوں کی حکمرانی کے سخت خلاف تھی وہ کہا کرتی تھی کہ اپنی زمین اپنا اختیار اس کی دلیری اور بہادری اور جذبہ حریت سے متاثر ہو کر فوجی افسر بنا دی گئی تھی انگریزوں نے ان کی جنگی مہارت کے سامنے ہتھیا ر ڈال دیے۔
قدرت کا نظام کچھ ایسا ہے کہ جنگ ہو یا امن اپنے مفادات کو فوقیت دینے والے ہر قوم میں پائے جاتے ہیں فرانس کی دلیر بیٹی کو بھی ذاتی مفادات اور تحفظا ت کی بھیٹ چڑھا دیا گیا اپنوں کی سازشوں نے اسے بے بس کر دیا گیا اور وہ انگریزوں کے ہاتھوں فروخت کر دی گئی انگریز جو خود کو دنیا کی مہذب ترین قوم کہتے نہیں تھکتے فرانس کی حریت پسند بیٹی کو زندہ جلا دیا کہتے ہیں کہ آزادی کے بعد مقدمے کی سماعت دوبارہ ہوئی اور عدالت نے اسے تمام الزامات سے بری کر دیا اور وہ مقدس ہستی قرار پائی آج بھی اس کی خدمات کے اعتراف میں 30مئی کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے پوری قوم اس کی خدمات کو نذرانہ عقیدت پیش کرتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے ستارے گردش میں آئے ہوئے ہیں کسی پیر فقیر کا دم درود کام نہیں کر رہا ہے بلکہ دم گھٹنے کا عمل وقت کے ساتھ ساتھ دم گھٹنے کا عمل بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ پرویز الٰہی نے خان صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ اپنے مشیروں سے محتاط رہیں خان صاحب اپنے آپ کو آج بھی عوام کا مقبول ترین رہنما سمجھتے ہیں حالاںکہ ان کی حکومت حالات کے سامنے سرنگو ہو چکی ہے قبل اس کے کہ زمیں بوس ہو جائے عمران خان کو بڑے فیصلے کرنا ہوں گے خبر نگار نے یہ نہیں بتایا کہ بڑے فیصلے کون کرے گا مگر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ خان صاحب کے اتحادی بھی اتحاد سے زیادہ ملکی سلامتی کے بارے میں سوچ رہے ہیں،موجودہ حالات میں کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی کہ رشتوں کا مانجھا کب حکومت کی پتنگ کاٹ دے۔
وزیراعظم عمران خان اور ان کے ترجمان نے بڑے دکھ کے ساتھ کہا ہے کہ مریم نواز کو خاتون اول کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا اسے اظہار رائے نہیں کہا جا سکتا سوال یہ ہے کہ بشریٰ بی بی کو خاتون اول کہنا مناسب ہے یا نہیں مگر یہ بات یقینی ہے کہ عمران خان کو مرد اول نہیں کہا جا سکتا مریم نوز سے لاکھ اختلاف کیا جائے مگر ان کے خیالات کی حقانیت سے انکار ممکن نہیں ان کا کہنا ہے کہ اختلاف رائے اس کا حق ہے جو تنقید کا حوصلہ رکھتا ہو عمران خان کلثوم نواز کے بارے میں منہ کھولنے سے قبل سوچ لیا کرتے تو آج بشریٰ بی بی کے بارے میں تنقید پر منہ نہ بناتے۔ خیر منہ بنانا یا منہ بسورنا ان کا ذاتی معاملہ ہے بیانیہ کسی بھی قوم اور ملک کی سوچ کا عکاس ہوتا ہے وزیراعظم یا ان کے کسی ترجمان کی رائے نہیں سو ان کے بیانات کو قومی بیان کہنا قوم کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔