رویتِ ہلال کے مسئلے کو حل کرنے کی موزوں ترین صورت یہی ہے کہ پورے شرعی قواعد وضوابط اور تحقیق وتفتیش کے بعد ملک کے کسی ایک مرکزی مقام سے چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلانِ عام ایسے اصحاب کے ذریعے سے کیا جائے، جن کے دین و تقویٰ پر عام مسلمانوں کو اعتماد ہو، اور جن کی آواز ملک بھر میں پہچانی جائے، اور اس اعلان کو پورے ملک کے لیے معتبر تسلیم کیا جانا چاہیے۔
بہرحال اس ملک کے باشندے دینی معاملات میں جو اعتماد علما پر رکھتے ہیں، وہ کسی اور پر نہیں رکھتے۔ برسرِاقتدار لوگوں کو ’مْلّا‘ سے جو بھی نفرت ہے، ہوا کرے۔ مگر دینی معاملات میں عام مسلمان بہرحال ’مْلّا‘ ہی پر بھروسا رکھتا ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ریڈیو پرکوئی خبریں سناتے ہوئے چاند ہونے کی اطلاع دے، اور ان کے ارشاد پر ملک میں روزے رکھے اورتوڑے جائیں۔ (ترجمان القرآن، اپریل 1961)
٭…٭…٭
رمضان میں فیاضی
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ کا طریقہ یہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا تو آپؐ ہر اسیر کو رہا کر دیتے تھے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔ (بیہقی)
رسول اللہؐ کی شفقت، رحم دلی، نرمی، عطا، بخشش اور فیاضی کا جو حال عام دنوں میں تھا وہ تو تھا ہی، کہ یہ چیزیں آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ کا حصہ تھیں، لیکن رمضان المبارک میں خاص طور پر ان میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ اس زمانے میں چونکہ آپؐ معمول سے کہیں زیادہ گہرائی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے اور اللہ کے ساتھ آپؐ کی محبت میں شدت آجاتی تھی، اس لیے آپؐ کی نیکیاں بھی عام دنوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ بڑھ جاتی تھیں۔ جیسا کہ خود نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ عام دنوں میں فرض ادا کرنے کا جو ثواب ملتا ہے، وہ رمضان میں نفل ادا کرنے پر ملتا ہے۔ اس لیے آپؐ رمضان کے زمانے میں بہت کثرت سے نیکیاں کرتے تھے۔ یہاں حضورؐ کے عمل میں دو چیزیں مثال کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ اسیروں کو رہا کرنا اور مانگنے والوں کو دینا۔
رسول اللہؐ کے اس عمل کے بارے میں کہ آپؐ رمضان میں ہر قیدی کو رہا کردیتے تھے، محدثین کے درمیان بحثیں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلاً ایک سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جرم کی پاداش میں قید ہے تو اس کو محض رمضان کے مہینے کی وجہ سے رہا کر دینا یا سزا نہ دینا کس طرح انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوسکتا ہے؟ اس بنا پر اس قول کی مختلف توجیہات کی گئی ہیں۔ بعض محدثین کے نزدیک اس سے مراد جنگی قیدی ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو اپنے ذمے کا قرض ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے ماخوذ ہوں۔ (حقیقت صوم)
٭…٭…٭
روزہ اور ضبطِ نفس
ضبطِ نفس سے مراد یہ ہے کہ آدمی کی خودی جسم اور اس کی طاقتوں پر اچھی طرح قابو یافتہ ہو اور نفس کی خواہشات و جذبات پر اس کی گرفت اتنی مضبوط ہو کہ وہ اس کے فیصلوں کے تابع ہو کر رہیں۔ انسان کے وجود میں خودی کا مقام وہی ہے جو ایک سلطنت میں حکمران کا مقام ہوا کرتا ہے۔ جسم اور اس کے اعضاء خودی کے آلۂ کار ہیں۔ تمام جسمانی اور دماغی طاقتیں خودی کی خدمت کے لیے ہیں۔ نفس کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ خودی کے حضور اپنی خواہشات کو درخواست کے طور پر پیش کرے۔ فیصلہ خودی کے اختیار میں ہے کہ وہ آلات اور طاقتوں کو کس مقصد کے لیے استعمال کرے اور نفس کی گزارشات میں سے کسے قبول اور کسے رَدّ کر دے۔ اگر کوئی خودی اتنی کمزور ہو کہ جسم کی مملکت میں وہ اپنا حکم اپنے منشاء کے مطابق نہ چلا سکے اور اس کے لیے نفس کی خواہشیں مطالبات اور احکام کا درجہ رکھتی ہوں تو وہ ایک مغلوب اور بے بس خودی ہے۔ اس کی مثال اس سوار کی سی ہے جو اپنے گھوڑے کے قابو میں آگیا ہو۔ ایسے کمزور انسان دْنیا میں کسی قسم کی بھی کامیاب زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ تاریخِ انسانی میں جن لوگوں نے اپنا کوئی نقش چھوڑا ہے وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنے وجود کی طاقتوں کو بزور اپنا محکوم بنا کر رکھا ہے، جو خواہشاتِ نفس کے بندے اور جذبات کے غلام بن کر نہیں بلکہ ان کے آقا بن کر رہے ہیں، جن کے ارادے مضبوط اور عزم پختہ رہے ہیں۔
(کتابچہ، روزہ اور ضبطِ نفس)