آسٹریلیا نے ٹریوس ہیڈ کی دھواں دھار سنچری کی بدولت 313 کا مجموعہ بورڈ پر سجایا شاید وہیں سے ہی میچ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا تھا، شاہین و شاداب کی غیر موجودگی میں آؤٹ آف فارم حسن علی کو ٹیم میں شامل دیکھنا اور پھر دل کھول کر رنز دینا ایک تکلیف دہ عمل تھا، نجانے ہمارے کوچز اور کپتان کیا سوچ کر مسلسل اسے کھلائے جا رہے ہیں جبکہ شاہ نواز دھانی جیسا بندہ لائن اپ میں موجود ہے۔ حارث رؤف سے کوٹے کے اوور پورے نہ کروانا بھی ہمارے لیے نقصان کا باعث بنا ، یقیناً یہ بری کپتانی کی ایک مثال ہے، 8 اوورز میں 44 رنز دے کر دو قیمتی وکٹیں لینے والا حارث اس بات کا مستحق تھا کہ وہ کوٹے کے دو اوور مزید مکمل کرتا اور عین ممکن تھا کہ پاکستان 300 سے پہلے ہی کینگروز کو قابو کر لیتا۔
خیر۔314 کا ہدف جو ماڈرن کرکٹ میں اگرچہ بہت بڑا ٹارگٹ نہیں لیکن پاکستان کرکٹ کا مائنڈ سیٹ ہی ایسا ہے کہ تین سو پلس کا ٹارگٹ دیکھ کر ہماری “کانپیں ٹانگنے” لگتی ہیں۔
یہی کچھ آج بھی ہوا جب فخر نے عمدہ آغاز کے باوجود ایک غیر ضروری شارٹ پر اپنی وکٹ گفٹ کی اور یوں پاکستان کو 24 کے اسکور پر فخر سے محروم ہونا پڑا۔اپنے جگری دوست امام کو پچ پر کپتان جانی نے جوائن کیا تو شائقین نے چِلاتے ہوتے اپنے کپتان کا استقبال کیا، بابر کا پہلا چوکا ایج پر موصول ہوا تو لگنے لگا کہ کپتان کو اعتماد کی بحالی درکار ہے، گیند واضح طور پر کپتان کے بلے پر نہیں آ رہی تھی اور یہ بات ہمارے لیے علامتِ خطرہ تھی، اسی دوران یکایک دنیا خوبصورت لگنے لگی جب بابر کے بلے سے اسٹریٹ ڈرائیو نکلی اور ہم سب کی جان میں جان آنے لگی، کپتان اپنے فارم میں واپس آ رہا تھا، ابتدائی 10 اوورز کا کھیل مکمل ہوا تو پاکستان ایک وکٹ کے نقصان پر 52 رنز بنا چکا تھا۔
کپتان نے لبوشین کو بیک فٹ پنچ مار کر چوکا وصول کیا تو اس کے ساتھ ہی ون ڈے کیریئر میں چار ہزار رنز بنانے والے دوسرے تیز ترین بلے باز اور پاکستان کے پندرہویں کھلاڑی بن چکے تھے۔
66 گیندوں پر نصف سنچری مکمل کی تواور اس بار سویپسن نے امپائر سے اپنے حق میں فیصلہ لے لیا۔ بابر اعظم 57 رنز بنا کر میدان سے باہر، سویپسن کی پہلی ون ڈے وکٹ اور کیا ہی شاندار وکٹ جو یقیناً ہمیشہ یاد رہے گی، اب 120 پر دو آؤٹ تھے اور میچ کو بیک گئیر لگ چکا تھا، اسی اوور میں سویپسن کو وکٹ کا جشن مناتے دیکھ کر امام میں جذبہ ء حق بیدار ہوا اور قدموں کا استعمال کرتے ہوئے زبردست گگلی کو ہوائی راستے سے باؤنڈری میں بھیج دیا، پاکستان کی اننگز کے آدھے اوورز مکمل ہوئے تو باقی ماندہ 25 اوورز میں 7.48 کے رن اوسط سے مزید 187 رنز درکار تھے، ایک مشکل ہدف ضرور تھا لیکن ناممکن نہیں تھا۔
جس نمبر پر عموماً رضوان بلے بازی کرتے رہے وہاںسعود شکیل کو پہلے بھیجنا کا فیصلہ بھی ناکام ہوا، صرف 3 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے تو پاکستان کی تیسری وکٹ کی صورت میں ایک اور نقصان اٹھانا پڑا، مشکلات بڑھتی جا رہیں تھیں۔
اٹھارہ گیندیں کھیل کر لکی مین رضوان باہر گئے تو سارے پاکستانی پریشانی کی عمیق دلدل میں دھنستے جا رہے تھے، ایلکس کیری کے غیر معمولی زبردست کیچ نے آسٹریلیا کو میچ کی ڈرائیونگ سیٹ پر لا بٹھایا، کامیاب گیند باز زمپا تھے۔
امام کریز پر موجود تھا، کھل کر کھیل رہا تھا مگر مقدر ساتھ نہیں دے رہا تھا، افتخار بھی وجہ ء افتخار نہ بن سکے اور لانگ آن پر کھیلا گیا ایک اچھا شارٹ سین ایبٹ کے ہاتھوں میں جا کر عمدہ کیچ میں تبدیل ہوا تو پاکستان کے 165 اسکور پر نصف ٹیم پویلین جا چکی تھی اور آخری باقاعدہ بلے باز خوش دل اور امام کھیل رہے تھے، غیر معمولی کھیل ہی یہاں سے پاکستان کو کھیل میں واپس لا سکتا تھا، لیکن ذہن میں رہے کہ پاکستان کی بیٹنگ سے امید لگانا، محبوبہ کہ لیے چاند تارے توڑ کر لانے کے دعوی کے برابر ہے، نہ محبوب کبھی بھی چاند پر جائیگا نہ محبوبہ کہ لیے چاند کا ٹکڑا توڑ کر لائے گا۔
اسی دوران میدان
مردِ مومن مردِ حق
امام الحق امام الحق
کے نعروں سے گونج اٹھا، آٹھویں سنچری بنا ڈالی اور اس سنچری کیلیے اس سے بہتر موقع اور کوئی ہو نہیں سکتا، ویل پلیڈ امام الحق 12 اوورز میں ساڑھے نو کی اوسط سے 114 رنز درکار تھے، مگر ابھی تک خوشدل نے دل خوش نہیں کیا تھا کہ اس بیچارے سے ہٹ ہی نہیں لگ رہی تھی۔
امام کا ساتھ کسی نے نہ دیا اور بالآخر 103 رنز کی عمدہ باری کھیل کر امام بولڈ ہوا تو پاکستان کی امید بھی ختم ہو چکی تھی، اس کے فوراً بعد زمپا قہر بن کر بلے بازوں پر ٹوٹا اور حسن علی، وسیم اور خوشدل کو آؤٹ کر کے بیٹنگ لائن کی کمر توڑ کر رکھ دی، حارث رؤف آخری کھلاڑی تھا جو 225 پر آؤٹ ہوا اور ہوں آسٹریلیا نے 88 رنز سے میچ جیت کر ایک صفر کی برتری حاصل کر لی۔
یہ پاکستان کی ون ڈے کرکٹ میں آسٹریلیا کے ہاتھوں مسلسل دسویں شکست بھی ہے اور اگر کارکردگی ایسی ہی رہی تو مزید دو اور شکستوں کیلیے تیار رہیے کہ جب تک ہم دفاعی کرکٹ سے باہر نہیں نکلیں گے ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔