نواز لیگ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے جمہوری نہ ہونے کی وجہ موروثی سیاست ہے

455

نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے جمہوری نہ ہونے کی وجہ موروثی سیاست ہے‘ الیکشن میں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں‘18ویں ترمیم کے ذریعے آئین سے انٹرا پارٹی الیکشن کی متعدد دفعات نکال دی گئیں‘ جماعتوں میں قابلیت نہیں چاپلوسی کی اہمیت ہے‘ 20 فیصد کارکنان بھی پارٹی منشور سے واقف نہیں ہوتے‘ سیاسی جماعتوں کی کمزوریوں نے جنرلوں کو مداخلت کا موقع دیا‘ سیاستدانوں کی نااہلی کے باعث کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا۔ان خیالات کا اظہار تجزیہ نگار راحیل معاویہ، امریکا میں مقیم دانشور صدیق حسن صدیقی اور ڈاکٹر زین اللہ خٹک نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف جمہوری کیوں نہیں ہیں؟‘‘ راحیل معاویہ نے کہاکہ دن رات جمہوریت پسندی اور اس کے فروغ کا راگ الاپنے والی سیاسی جماعتوں کے نسل در نسل چلنے والے قائدین خود کو جمہوریت اور اپنے خاندان کی بقا کو جمہوریت کی بقا سمجھتے ہیں‘ تمام سیاسی جماعتیں خود کو ایک دوسرے سے زیادہ جمہوری قرار دیتی ہیں‘ دوسری طرف ان کے قائدین خود اپنی پارٹیوں میں جمہوریت کے فروغ سے خائف ہیں اور تنظیم سازی کو کبھی دیانتداری سے سرانجام نہیں دیتے‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے نوٹسز جاری کرنے پڑتے ہیں جو لولی لنگڑی باڈیاں بنائی جاتی ہیں وہ بھی فقط اس لیے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکے‘ جمہوریت اور اس نظام کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں تنظیم سازی کا عمل مکمل کریں‘ تنظیم سازی کے عمل کو یونین کونسل اور ٹاؤن و گلی محلے تک لے کر جائیں مگر یہاں صوبوں اور ضلعوں میں محض خانہ پری کی جاتی ہے‘موروثی سیاستدان سیاسی جماعتوں کو اپنی ذاتی ملکیت کے طور پر چلاتے ہیں‘ مجبوراً چند لوگوں کو رسمی عہدے دیتے ہیں یہ عہدے بھی ان کو دیے جاتے ہیں جو بس خاموشی سے سب دیکھتے سنتے رہیں تاکہ ساری پارٹی چند لوگوں کے گرد گھومتی رہے‘ یہاں فقط چاپلوسی کو اہمیت دی جاتی ہے‘ اہلیت و قابلیت مشکوک قرار پاتی ہے۔ راحیل معاویہ کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ سیاسی جماعتیں تنظیم سازی کو مضبوط کریں اور باڈی کو بااختیار بنائیں تو پھر پارٹیاں کبھی شخصیات کے گرد نہ گھومیں بلکہ نظریہ اور منشور عام ہو‘ ایک محتاط اندازے کے مطابق سیاسی جماعتوں کے 20 فیصد ورکرز بھی اپنی پارٹی کے دستور اور منشور سے واقف نہیں ہوتے جو کہ کسی بھی نظریاتی پارٹی کی اساس ہیں‘ کارکنان کو محض نعرے بازی، جلسوں اور دھرنوں میں خجل خواری اور ووٹ دینے یا دلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ‘یہاں سیاست فقط گنے چنے خاندانوں کا حق سمجھا جاتا ہے‘ کسی شریف مزدور یا غریب آدمی کو اس سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے‘ ہمارے ملک کی 75 فیصد آبادی کو اس سارے عمل سے دور رکھا جاتا ہے‘ الیکشن کو اتنا مہنگا کردیا گیا ہے کہ یہاں بڑے بڑے سرمایہ دار ہی اس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں‘ ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر کروڑوں روپے خرچ کردیے جاتے ہیں‘سوال یہ ہے کہ جو شخص کئی کروڑ لگا کر یہ نشست حاصل کرے گا وہ عوام کی نمائندگی کرے گا یا اپنا لگایا ہوا سرمایہ پورا کرے گا؟اگر فقط تنخواہوں پر ہی گزر بسر کرنا پڑے تو الیکشن میں لگے ہوئے پیٹرول کے پیسے ہی 5 سال میں وصول نہ کیے جاسکیں‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا یہاں کسی سیاسی جماعت کے ورکر کی یہ تربیت ہے کہ وہ اپنے قائدین کا محاسبہ کرسکے؟ صدیق حسن صدیقی نے کہا کہ جمہوریت کا لفظ جمہور سے نکلا ہے جس کا مطلب عوام کی اکثریت اور عوام کی طاقت ہے‘ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے کہ عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعے اور عوام پر ہونی چاہیے‘یہاں کب عوام کو حق حکمرانی نصیب ہوئی ہے جبکہ یہاں ہر 5 سال بعد اربوں روپے لگا کر ایوان زیریں اور ایوان بالا کے لیے نمائندے چنے جاتے ہیں جن کی آئینی ذمے داری صرف قانون سازی ہے‘ قیام پاکستان کے بعد سیاسی اور جمہوری روایات کو فروغ دینے کے لیے دستور ساز اسمبلیوں کو اختیارات دیے گئے لیکن بدقسمتی سے خان ازم، نواب ازم ، وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ رویوں کی وجہ سے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوسکے چنانچہ سیاسی جماعتیں بہت ہی کمزور رہیں اس لیے فوجی جرنیلوں کو امور مملکت چلانے کے مواقع فراہم ہوئے لہٰذا سیاست کا بیشتر حصہ فوجی آمریت کے تحت گزرا۔ ڈاکٹر زین خٹک نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ موروثی سیاست ہے‘ آپ اگر نواز شریف کو دیکھیں وہ اپنی جگہ اپنی بیٹی کو لانا چاہتے ہیں، جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو ان کا بھائی پنجاب کا وزیراعلیٰ تھا‘ اب شہباز شریف سیاست میں اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو آگے لانا چاہتے ہیں‘شہباز شریف اس وقت خود وفاق میں اپوزیشن لیڈر ہیں اور بیٹے کو پنجاب کا اپوزیشن لیڈر بنایا ہوا ہے‘ پارٹی میں کسی کو آگے نہیں آنے دیتے‘ ایک خاندان پوری پارٹی کی قیادت کر رہا ہے‘ بالکل یہی صورتحال پیپلز پارٹی کی بھی ہے‘ پارٹیاں خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں‘ سیاسی جماعتیں قبائل اور ثقافت پر مبنی گروہ دکھائی دیتی ہیں‘18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سیاسی جماعتوں نے آئین سے انٹرا پارٹی الیکشن کی متعدد دفعات کو ہی نکلوا دیا ہے‘ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں جمہوریت کے نام پر تماشا لگتا ہے‘ یونانی مفکر ہیروڈوٹس نے جمہوریت کا مفہوم اس طرح بیان کیا ہے کہ جمہوریت کے ذریعے ایک ایسی حکومت تشکیل پاتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں‘ ہمارے ملک میں جمہوریت کے ساتھ ہمیشہ ہی کھلواڑ ہوا ہے، یہ کھلواڑ کرنے والے کوئی اور نہیں ہمارے اپنے منتخب کردہ حکمران ہیں جو اقتدار میں آتے ہیں تو عوام کے ووٹ سے لیکن اقتدار سے جاتے جمہوری تماشے کے ذریعے ہیں‘ آپ ہماری سیاست کا اندازہ لگائیں کہ ان 74 سال میں کوئی بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا، اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے سیاستدان خود ہیں۔