اسلام آباد(نمائندہ جسارت+صباح نیوز) عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ آرٹیکل 63 میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں صرف وقتی نااہلی کا ذکر ہے، تاحیات نااہلی جھوٹا بیان حلفی دینے پر ہوتی ہے، 5سال تک نااہل قرار پانے والے پر تاحیات نااہلی کا اطلاق کیسے کردیں، تاحیات نااہلی کے تعین کے لیے ہمیں کافی قلابازیاں لگانی پڑیں گی۔عدالت عظمیٰ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سماعت ہوئی جس میں اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا اختلاف کرنے کا مطلب انحراف ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا نہیں! جسٹس جمال نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں رکنیت ختم ہونے کا لفظ ہے نااہلی کا نہیں، جب نااہلی ہے ہی نہیں تو بات ہی ختم ہوگئی، کیا الیکشن کمیشن انکوائری کرے گا کہ انحراف ہوا ہے یا نہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی،پارٹی سربراہ نااہلی کا ڈیکلریشن دے گا، پارٹی سے انحراف غلطی سے نہیں ہوتا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے، تاحیات نااہلی کے تعین کے لیے ہمیں کافی
قلابازیاں لگانی پڑیں گئی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جھوٹا بیان حلفی دینے پر تاحیات نااہلی ہوتی ہے، پارلیمنٹ جھوٹے بیان حلفی پر 5سال نااہلی کا قانون بنائے تو کالعدم ہوگا؟ آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق اور نتائج پر الگ الگ عدالتی فیصلے ہیں۔اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سندھ ہاؤس حملے کا کیا بنا؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ملزمان کے وارنٹ گرفتاری حاصل کرلیے ہیں، پی ٹی آئی کے دونوں اراکین اسمبلی سمیت تمام ملزمان گرفتار ہوں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ سندھ ہاؤس حملہ کیس کی رپورٹ کل بدھ تک دوبارہ جمع کرائی جائے۔