پی ٹی آئی حکومت کے چار سال

1119

۔2018ء کے عام انتخابات کے انعقاد کے بعد عمران خان کی سربراہی میں پی ٹی آئی حکومت بن گئی۔ انتخابات دھاندلی زدہ اور متنازع تھے لیکن مسلم لیگ اور پی پی پی حکومتوں کی نااہلی، ناکامیوں کی وجہ سے عوام نے نئی حکومت کو برداشت کرلیا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک پیج پر ہونے کے مژدہِ جاں فزاء نے عوام کی توقعات بہت بڑھادیں۔ عمران خان کے تبدیلی، سونامی اور ریاست ِ مدینہ نظام کے نعروں نے عوام میں توقعات کے بلند مینار کھڑے کردیے۔ اب پی ٹی آئی کے چار سالہ دورِ اقتدار کے بعد ملک سیاسی، آئینی، جمہوری بحرانوں کی زد میں ہے۔ اپوزیشن احتجاج اور عدم اعتماد کا آئینی جمہوری راستہ اختیار کررہی ہے لیکن حکومت نے ہیجانی، شدت، انتہاپسندی اور سیاسی دہشت گردی کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ ریاستی عناصر، پارلیمنٹ، عدلیہ، مقتدرہ، میڈیا سب متنازع، مشکوک اور بے اعتمادی کا شکار کردیے گئے ہیں۔ اِن چار سال میں حکومتی کارکردگی کی ناکامیاں اور کامیابیاں کیا رہیں؟ ملک میں موجود سیاسی فساد اور افراتفری کی وجوہات کیا ہیں؟ بین السطور اِن سوالات کا معروضی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
قانون سازی اور گورننس: برسرِ اقتدار آنے سے پہلے عمران خان نے اپنی الیکشن مہم کے دوران لوگوں سے وعدہ کیا کہ وہ ملک میں ریاست ِ مدینہ کی طرز پر نظام قائم کریں گے۔ عوام کے لیے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بناکر دیں گے۔ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتیں آدھی کردیں گے۔ مہنگائی کم کریں گے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، ایسا ’’نیا پاکستان‘‘ بناکر دیں گے جس میں کوئی شخص بے روزگار نہیں ہوگا، کوئی بھوکا نہیں سوئے گا، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اِن وعدوں اور دعوؤں کے برعکس اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان سرکار کے گزشتہ چار سالہ دورِ حکومت میں عملاً پانچ لاکھ ڈگری ہولڈرز سمیت کروڑوں افراد بے روزگار ہوگئے۔ غربت، افلاس، کمرتوڑ مہنگائی، بے روزگاری اور بھوک کے باعث عوام جھونپڑیوں سے بھی محروم ہوگئے۔
قراردادِ مقاصد، آئینِ پاکستان، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات نظرانداز کرکے قانون سازی کرنے کی گزشتہ حکومتوں کی روایت کو ریاستِ مدینہ کے سلوگن کے ساتھ وجود میں آنے والی پی ٹی آئی حکومت نے پورے آن بان کے ساتھ جاری و ساری رکھا۔ متعدد قوانین پر قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی نظریاتی کونسل کی آراء اور سفارشات کو حسبِ روایت نظر انداز کرکے گزشتہ حکومتوں کی روش برقرار رکھی گئی۔ پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے قرآن و سنت سے متصادم قانون سازی کئی گئی، بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ پارلیمنٹ کو نظر انداز کرکے صدارتی آرڈی نینس کی فیکٹری کھول دی گئی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شہہ پر اسلام دشمن، ملک دشمن اور عوام دشمن ناقص قانون سازی کے ذریعے عوام کے منتخب نمائندوں اور قانون سازی کے لیے منتخب آئینی فورم پارلیمنٹ کی بے توقیری کرکے اِسے عضو معطل بنادیا گیا۔ عمران خان کے گزشتہ چار سالہ دورِ حکومت کا جائزہ لیا جائے تو یہی تصویر سامنے آتی ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے اور ادارے بے وقار اور عوام ذلیل و خوار۔
کابینہ اور بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران عمران خان اب تک چار وزرائے خزانہ اور چھے چیئرمین ایف بی آر تبدیل کرچکے۔ کابینہ میں ردو بدل اور اضافے کا سلسلہ بھی مسلسل جاری رہا۔ یہی طرزِ عمل وفاق اور پنجاب بیورو کریسی میں مسلسل تبادلوں کا رہا۔ صرف تین سال کے دوران پنجاب میں پانچ چیف سیکرٹری اور سات آئی جی تبدیل کیے گئے۔ وفاق میں حکومت سنبھالنے سے پہلے عمران خان بار بار کہتے رہے کہ وہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کردیں گے، اور اس کے لیے وہ خیبر پختون خوا کی مثالیں دیتے رہے، جہاں اُن کے بقول پولیس سیاسی اثر سے بالکل آزاد خالصتاً میرٹ پر کام کررہی ہے۔ لیکن گزشتہ چار سال کے دوران اسلام آباد میں چار آئی جی تبدیل کیے گئے۔ خود عدالت عظمیٰ اُن کے اس طرزِ عمل کو سیاسی مداخلت کی بدترین مثال قرار دے چکی ہے۔ یہ بیڈ گورننس کی واضح مثالیں ہے۔
مذکورہ بالا اور ان جیسے متعدد اقدامات کے ذریعے عمران خان کی زیر قیادت حکومت نے انتخابی جلسوں، جلوسوں میں ریاست ِ مدینہ کے بابرکت نظام کے قیام کے حوالے سے عوام سے کیے گئے تمام وعدوں اور یقین دہانیوں سے عملاً انحراف کرکے اسلام دشمن، ملک دشمن اور عوام دشمن ہونے کا عملی ثبوت دیا۔ ملکی سیاست میں غیر اسلامی، بدتہذیبی اور لادینیت پر مبنی کلچر کا فروغ، گالم گلوچ، غرور، تکبر، اناپرستی، انتقام، جھوٹ، عہد شکنی، ڈرانا دھمکانا، عدم تعاون وغیرہ وہ غیراسلامی اور غیرانسانی اسلوب اور طرزِ ہائے عمل ہیں جن کا فروغ اوررواج عمران خان ہی کے مرہونِ منت ہے۔
مہنگائی، افراطِ زر، قرضے اور معاشی صورتِ حال: عمران خان سرکار کے چار سال عوام کے لیے معاشی بدحالی، تباہی، مہنگائی کا سونامی، ملکی قرضوں کے بوجھ، معیارِ زندگی کی گراوٹ، اشیائے خور ونوش اور اشیائے ضروریہ کی مسلسل گرانی کا ایک بھیانک باب ثابت ہوئے۔ اقتصادی تباہ حالی، سود، قرضوں، کرپشن، رشوت، بدانتظامی، بجلی، گیس، پٹرول، آٹا، چینی، خوردنی تیل، پٹرولیم مصنوعات، کھاد، ادویات وغیرہ کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر، ہر بڑے معاشی بحران کے پیچھے خود حکومتی وزراء، چینی کے مصنوعی بحران کے ذریعے حکومتی وزراء سمیت چینی مافیا کا عوام کی جیبوں پر 184ارب روپے کا ڈاکا، آٹا مافیا نے 220ارب روپے لوٹے۔ مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ کے باعث معاشی ترقی کی رفتار منفی ہوگئی، جوکہ 1951-52 کے منفی گروتھ ریٹ کے بعد پاکستانی معیشت کی بدترین معاشی حالت کی نشاندہی ہے۔
بدترین طرز حکمرانی اور ناقص معاشی پالیسیوں کی بدولت پاکستان عملاً عالمی ساہوکار مالیاتی اداروں یعنی ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کا غلام بن کر رہ گیا۔ ملکی اثاثے (موٹر ویز، ایئرپورٹس وغیرہ) اِن عالمی ساہوکار اداروں کے ہاں رہن رکھ دیے گئے۔ اس طرح پاکستان کی معیشت ہی نہیں بلکہ اِس کی سلامتی، سالمیت، خود مختاری، آزادی اور دفاعی صلاحیت بھی عالمی مالیاتی اداروں کے ہاں گِروی رکھ دیے گئے۔ عالمی دباؤ پر اسٹیٹ بینک کو عملاً عالمی مالیاتی اداروں کی تحویل میں دے دیاگیاہے۔ ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان بینکنگ سروس کارپوریشن آرڈیننس 2001 (ترمیمی) بل‘‘ کے ذریعے گورنر اسٹیٹ بینک کو تمام مالیاتی اُمور میں حکومتی اجازت سے استثنیٰ دے دیا گیا۔ یوں حکومت نے گورنر اسٹیٹ بینک کے تقرر، احتساب، تنزلی، کارکردگی روپے کی قدر اور بینک کی مالیاتی پالیسیوں کے سلسلے میں حکومتی عملداری سے دست برداری پر مبنی قانون سازی کرکے خود اپنے ہاتھ کا ٹ کر عالمی مالیاتی اداروں کے حوالے کردیے ہیں۔ اب اسٹیٹ بینک محض نام کی حد تک اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہے۔ کچھ عرصہ قبل آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرضہ کی قسط حاصل کرنے کے لیے منی بجٹ پیش کیا گیا۔ جس کے ذریعے پہلے سے زندہ درگور عوام پر 360ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا۔ عمران خان نے صرف تین سال کے دوران مجموعی ملکی قرضوں میں 52 فی صد ریکارڈ اضافہ کیا۔
غربت کے ہاتھوں مجبور عوام اپنے معصوم بچوں/بچیوں کو دریا برد کرنے یا بیچنے اور خودکشیاں کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ اسٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات کے لیے فکر مند عوام اب آٹا، چینی، گھی، پٹرول، بجلی، گیس جیسی بنیادی ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے سرگرداں۔ کمر توڑ مہنگائی کے باعث تنخواہ دار طبقہ اور محنت کش مزدور طبقہ دربدر۔
آئی ایم ایف کی تابعداری میں آئے روز عوام پر مہنگائی بم گراکر ’’گھبرانا نہیں‘‘ کی رِٹ نے عوام کو ذہنی اور نفسیاتی مریض بناکر رکھ دیا اور وہ دن رات اس ظالم حکومت سے نجات کی دعائیں مانگنے لگ گئے۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں پر حد سے زیادہ ظلم کرنے والے کو نہیں بخشتا۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول آج بھی سچ ثابت ہورہا ہے کہ ’’کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم اور جبر کی نہیں‘‘۔ ظلم کیا ہے؟ کسی شے کو اپنے محل (جگہ) سے ہٹادینے کا نام ظلم ہے۔ جیسے ہی انسان اس غلطی کا ارتکاب کربیٹھتا ہے ظلم وجود میں آتا ہے۔ سماج اور ریاست کے باب میں انسانی تاریخ صدیوں سے اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی چلی آرہی ہے۔ قرآن و حدیث کا تو فیصلہ ہے کہ امانتیں ان کے اہل لوگوں کے سپرد کی جائیں۔ یعنی اقتدار کی امانت کا فیصلہ اگر عوام نے کرنا ہے تو پھر اْن افراد کو منتخب کیا جائے جو اس امانت کے اہل ہوں۔ یہ اہلیت اخلاقی بھی ہوتی ہے اور عقلی بھی۔ اخلاقی افلاس میں مبتلا افراد اگر حکمران بنادیے جائیں تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ ظلم کا ارتکاب کرلیا گیا، یعنی ایک شے کو وہاں رکھ دیا گیا جو اس کا محل، اس کی جگہ نہیں تھی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین بھی اس حوالے سے واضح ہدایات اور رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ حاکمِ وقت کو کن کن اوصافِ حمیدہ کا حامل ہونا چاہیے۔
(جاری ہے)
لیاقت بلوچ
اسی طرح پی ٹی آئی دورِ حکومت میں ادویات کی قیمتوں میں 13مرتبہ تاریخی اضافہ کیا گیا۔ ستمبر 2020ء میں وفاقی کابینہ کی جانب سے جان بچانے والی 94 ادویات کی قیمتوں میں 510 فی صد تک اضافہ کیا گیا۔ ایک ماہ بعد اکتوبر 2020ء میں حکومت نے ادویات کی قیمتوں میں مزید 22 تا 35 فی صد اضافہ کرکے مجموعی طور پر 253 ادویات کی قیمتیں بڑھائیں۔ بین الاقوامی اداروں کی طرف سے کورونا کے امدادی فنڈ کی مد میں ملنی والی فنڈ کی رقم میں سے 300ارب روپے کی لوٹ مار کی گئی۔
اِس ساری صورت ِ حال میں غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مارے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے سرکاری خزانے سے بھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات لینے والے ’’وزرائے کرام‘‘ عوام کو روٹی، چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ کا استعمال کم کرنے کا مشورہ دینے لگے۔ عوام کو باعزت اور باوقار زندگی گزارنے کے لیے روزگار اور کاروبار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے بجائے انہیں لنگر خانوں کا محتاج بنادیا گیا۔
ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی مسلسل گِراوٹ: پاکستانی کرنسی کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلہ میں خطے کے دیگر ممالک بنگلا دیش، بھوٹان، انڈیا، جاپان، ملائیشیا، مالدیپ، نیپال، فلپائن، تائیوان، تاجکستان، ترکمانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک سے بہت کم رہی۔ حتیٰ کہ تین دہائیوں تک بیرونی جارحیت اور جنگی تباہ کاریوں کا سامنا کرنے والے اور اِس وقت شدید مالی بحران کے شکار افغانستان کے مقابلے میں بھی پاکستانی روپیہ کمزور۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر 87 افغانی کے لگ بھگ، جبکہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر 181 روپے سے زیادہ ہے۔
بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی مسلسل بڑھتی قیمتیں: حکومت خود دعویٰ کرتی ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی بجلی ہماری مجموعی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے باوجود ملک میں توانائی بحران جاری ہے۔ بجلی و گیس سیکٹرز کے گردشی قرضے تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھورہے ہیں۔ 2018ء میں بجلی کے گردشی قرضے 1148 ارب تھے، جو اس وقت بڑھ کر 2400 ارب روپے تک جاپہنچے ہیں۔ یہی صورت ِ حال گیس کے بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کا ہے۔ ایک معاہدے کے تحت آئی پی پیز کو عوام سے 350ارب روپے لوٹنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ جبکہ عوام کے لیے 3پیسے کی چھوٹ بھی نہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شرائط کے تحت بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل ناجائز اضافہ حکومت کی طرف سے عوام پر خودکش حملوں کے مترادف ہے۔ اِسی طرح حکومت نے قطر سے ایل این جی معاہدے میں تاخیر کرکے مہنگے داموں خریداری کی، اس طرح آٹا، چینی، پٹرول اسکینڈلز کی طرح ایل این جی اسکینڈل میں بھی 100ارب روپے کی لوٹ مار کی گئی۔
وسائل کا بے جا استعمال اور سْودی معیشت: عمران خان ایک طرف وسائل کی کمی کا رونا روتے ہیں تو دوسری طرف اسٹیٹ بینک کے موجودہ گورنر رضا باقر کو آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت 25 لاکھ ماہانہ تنخواہ اور کم و بیش اتنی ہی ماہانہ دیگر مراعات پر مقرر کیا۔ انتخابی جلسوں میں گزشتہ حکمرانوں کی عیاشیوں کا حوالہ دے کر غیر ترقیاتی حکومتی اخراجات میں کمی لانے اور اور کم سے کم کابینہ رکھنے کے دعویدار عمران خان تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج کے ساتھ حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اپنے ہر وعدے اور دعوے سے یوٹرن عمران خان کی پہچان بن کر رہ گیا ہے۔ عمران خان کی یہ دوغلی پالیسی عوام کے ساتھ کھلا دھوکا اور فریب ہے۔ سودی معیشت، آئی ایم ایف کی غلامی، منی بجٹ، اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے نام پر اسے آئی ایم ایف کی تحویل میں دینے اور بدترین مہنگائی کے خلاف جماعت ِ اسلامی نے سینیٹ آف پاکستان اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مسلسل آواز اٹھائی۔ محترم امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی ہدایت پر ملک بھر میں 101 دھرنوں کا شیڈول جاری کیا گیا، جوکہ کامیابی سے جاری ہے۔ ان دھرنوں کو عوامی سطح پر ملنے والی پزیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام موجودہ حکومت سے نالاں ہے اور وہ نئے مینڈیٹ کے تحت قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس وقت مجموعی قومی قرضہ 56ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ 127ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے کے ساتھ مجموعی قرضے جی ڈی پی 93 فی صد سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس سال کے بجٹ میں اِن قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں 30035 ارب روپے اکٹھا کرنے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں منی بجٹ کی منظوری اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے نام پر بل کی منظوری میں حکومت کے ساتھ مل کر عوام کا خون نچوڑنے میں برابر کی شریک رہیں۔ مختصر یہ کہ ملکی معیشت کی گاڑی اناڑی ڈرائیور کے ہاتھ آگئی ہے جو اِسے ڈھلوان سے نیچے کی طرف لے جارہے ہیں اور بدقسمتی سے اس گاڑی کی بریکیں بھی فیل ہوگئی ہیں۔
کرپشن اور اقربا ء پروری: جلسے جلوسوں میں عوام کے سامنے کرپشن کا خاتمہ اور کرپٹ افراد کا محاسبہ جیسے پُرفریب نعرے لگانے والی عمران سرکار خود کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کررہی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کرپشن کے لحاظ سے 117 ویں نمبر سے ترقی کرکے 140 ویں نمبر پر آگیا۔ حسبِ دستور کرپشن کی روک تھام میں اینٹی کرپشن، نیب، ایف بی آر، پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں سمیت تمام ادارے مکمل طور پر ناکام رہے۔ پی ٹی آئی وزراء اور اُن کے رشتہ دار کھلے عام سرکاری نوکریوں کے بدلے عوام سے رشوت لیتے ہوئے نظر آئے۔ بین الاقوامی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق موجودہ دورِ حکومت میں کرپشن بڑھ کر 30 فی صد ہوگئی۔
لوٹی گئی قومی دولت کی واپسی: برسرِ اقتدار آنے سے پہلے عمران خان نے عوام سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ بیرونِ ملک بینکوں میں رکھی گئی ملک سے لوٹی ہوئی دولت کو پاکستان میں واپس لے کر آئیں گے۔ 200 یا 300 ارب ڈالر ملک میں واپس آئیں گے تو ملک کی معاشی تقدیر بدل کر رکھ دوں گا۔ لیکن آج چار سال گزرنے کے باوجود مذکورہ رقم کا ایک ڈالر بھی قومی خزانے میں واپس نہیں آیا۔ بلکہ جس شخص کو یہ ذمے داری سونپی گئی تھی، یعنی شہزاد اکبر، اُسی کو یہ کہہ کر عہدے سے ہٹادیا گیا کہ وہ احتساب کے حوالے سے اپنی ذمے داریوں کو کماحقہ ادا نہیں کرسکے۔ اب تو براڈشیٹ کے سربراہ کاوے موسوی نے بھی کہہ دیا کہ پاکستانی سیاستدانوں کی لوٹی ہوئی رقم برآمد کرنے کے لیے پاکستانی حکومت نے جو ذمے داری سونپی تھی وہ سب قومی احتساب بیورو (نیب) کے تحت ایک فراڈ تھا۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے نام پر سرکاری خزانے سے 65 ملین پاؤنڈ کی خطیر رقم خرچ کرکے ناکامی کا اعتراف ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاناما لیکس کے ذریعے 436 اور پنڈورا لیکس کے ذریعے 700سے زائد کرپٹ پاکستانیوں کے نام منظرِ عام پر آنے کے باجود کوئی کارروائی نہ ہونا بھی اس بات کا ایک ثبوت ہے کہ ’’احتساب سب کا‘‘ نعرے کے حوالے سے عمران خان کتنے مخلص اور سنجیدہ تھے۔ سوئس بینک اکاؤنٹس لیکس کے ذریعے 1400 پاکستانیوں کے نام بھی منظرِ عام پر آئے لیکن ان افراد کے خلاف حکومت نیب یا کسی دیگر ادارے نے تاحال کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس طرح قومی مطالبہ ’’احتساب سب کا‘‘ ملیامیٹ، کرپٹ مافیا کی سرپرستی، ملک میں کرپشن اور رشوت کی رفتار تیزتر ہوتی چلی گئی۔
خارجہ پالیسی: خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی عمران خان عدم حکمت اور غیرسفارتی طرزِ عمل کے باعث تنہائی کا شکار ہیں۔ ہر ظالم ملک کی طرفداری،کشمیر اور افغانستان کے محاذوں پر بزدلی اور کنارہ کشی، قومی کشمیر پالیسی پر پسپائی اور معذرت خواہانہ رویہ، افغانستان میں افغان عوام اور طالبان کی ناٹو فورسز اور امریکی جارحیت کے خلاف تین عشروں پر مشتمل صبر آزما اور قربانیوں سے بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں تاریخی کامیابی کے بعد حکومت کے قیام کے بعد انہیں تسلیم کیے جانے کے حوالے سے تذبذب اور غیریقینی صورتِ حال سے دوچار ہونا ہماری خارجہ پالیسی کی واضح ناکامیاں ہیں۔
امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال: دیگر محاذوں کی طرح گزشتہ چار سال کے دوران اور بالخصوص پچھلے کچھ عرصے میں ملک کی داخلی صورتِ حال انتہائی خراب رہی۔ سیکورٹی اہلکاروں، مساجد پر دہشت گردانہ حملوں کی تازہ لہر نے کوئٹہ، بلوچستان کے دیگر علاقوں سمیت پشاور اور ملک کے بیش تر شہروں کو نشانے پر رکھا جس کے نتیجے میں درجنوں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع اور املاک تباہ ہوئیں۔ اسٹریٹ کرائمز، چوری ڈکیتی کے واقعات کراچی، لاہور، راولپنڈی جیسے شہروں میں تو پہلے سے جاری تھے ہی لیکن اب یہ سلسلہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں تک بھی پھیل چکا ہے۔ جہاں آئے روز گاڑیاں، موٹر سائیکل، موبائل فون، دیگر قیمتی اشیا چھیننے کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔
انتخابی اصلاحات: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی ضابطہ اخلاق کی تشکیل کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کو مشاورتی کانفرنس کی دعوت دی۔ جماعت ِ اسلامی انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پہلے بھی اپنی سفارشات الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کراتی رہی ہے اور اس مرتبہ بھی اپنی اس روایت کو جاری رکھتے ہوئے انتخابی ضابطہ اخلاق کے حوالے سے اپنی گزارشات الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرائے گی۔ ریاستی اداروں کی سیاسی انتخابی عمل سے بے دخلی۔ ہر جائز، ناجائز حربوں، دولت کے بے دریغ استعمال اور جیت کے لیے جھوٹ، فریب اور جذباتی نمائشی ماحول پیدا کرنے سے اجتناب، جمہور کو فیصلہ کرنے میں آزادی اور عوام کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کا جمہوری کلچر مضبوط بنانا ہر سیاسی جماعت کا مطالبہ رہا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت اس حوالے سے بھی غیرسنجیدہ اور غیر متعلق نظر آئی۔ بلکہ خود عمران خان کے وزیر باتدبیر الیکشن کمیشن سے اْلجھنے میں مصروف رہے۔ انتخابی اصلاحات اور انتخابی ضابطہ اخلاق کی متفقہ تیاری ایک قومی اور عوامی ایشو ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کا اس اہم قومی اور عوامی ایشو سے فرار بھی اس کی غیرسنجیدگی اور عدم تعاون کی واضح مثال ہے۔ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے اور سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر بٹھاکر متفقہ انتخابی اصلاحات لانے کے بجائے خود عمران خان اور اس کے وزراء انتخابی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اُڑانے میں مصروف ہیں۔ خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابی جلسوں میں شرکت سے منع کرنے کے باوجود عمران خان مسلسل ان جلسوں سے خطاب کرتے چلے آرہے ہیں، جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن انہیں مسلسل جرمانہ کررہی ہے۔
نظامِ انصاف (عدلیہ) اور صحافت: اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی میرٹ اور اعتراضات، شکوک و شبہات سے پاک تقرری نظامِ عدل پر عوام کے اعتماد کو بڑھانے کا باعث ہوگا۔ بنچ اور بار کے درمیان باہمی اعتماد و احترام پر مبنی تعلقات انصاف کی فراہمی کے لیے ضروری ہیں۔ عدلیہ کی آزادی اور عام الناس میں اس کے اعتماد و احترام سے انصاف کا بول بالا ہوگا۔ تاہم جب سے پی ٹی آئی اقتدار میں آئی ہے اس نے عدلیہ جیسے اہم آئینی ادارے کو بھی پسند نا پسند اور تعصبات کا شکار کردیا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بے توقیری اور اُن کے فیصلوں پر حکومت کی طرف سے اعتراضات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت دیگر سابق حکمرانوں کی طرح عدلیہ کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور اس میں ناکامی پر سیخ پا۔ سستے، آسان انساف کے حصول کے لیے عدالتی نظام، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اصلاح، نظامِ عدل کی اصلاحات وقت کے اہم ترین تقاضوں میں سے ایک ہے۔
اِسی اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں پر فردِ جرم عائد کرنے کا عمل خود عدلیہ کے لیے سوالیہ نشان۔ فردِ جرم کے حوالے سے انصاف کے تقاضے پامال کیے گئے۔ صحافتی تنظیموں، انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اِس مقدمہ میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے حوالے سے نرمی برتنے کی اپیل کی گئی۔
زراعت کی زبوں حالی: پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ مجموعی ملکی پیداوار میں زراعت کا حصہ کم و بیش 30 فی صد ہے۔ ملکی آبادی کا بڑا حصہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر زراعت سے وابستہ ہے۔ اس کے باوجود ماضی کی حکومتوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عمران خان سرکار نے زرعی INPUTS پر بے جا ٹیکس، زرعی کھاد کی قیمتوں میں بے جا اضافہ، کاشت کاروں کے لیے کسی قسم کی پالیسی یا مراعات کا نہ ہونا، کاشت کاروں کی اپنی فصلوں کے جائز معاوضہ نہ ملنے جیسے معاملات جاری رکھے۔ پڑوسی ممالک سمیت دنیا بھر میں زراعت کی ترقی کے لیے حکومتیں کاشت کاروں کے لیے مختلف مراعات کا اعلان کرتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں زراعت کی ترقی کا خواب تاحال شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
این ایف سی ایوارڈ: اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت وفاق اور صوبوں میں قومی وسائل کی تقسیم ہر سال ہونی ہے۔ اس حوالے سے ایک مالیاتی کمیشن قائم کیا گیا جس کی ہر پانچ سال بعد تشکیل نو ہوگی اور جس کا کام یہ قرار پایا کہ صوبوں کی آبادی کی بنیاد پر فنڈز کی تقسیم کو یقینی بنائے اور ہر سال بجٹ سے قبل قومی مالیاتی کمیشن کا باضابطہ اجلاس منعقد کرکے اس کا اعلان کیا جائے تاکہ صوبوں کو اپنے سالانہ بجٹ مرتب کرنے میں سہولت ہو۔ تاہم بدقسمتی سے یہ ایوارڈ کبھی صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے ملتوی کیے جاتے رہے تو کبھی کوئی دیگر رکاوٹ آڑے آگئی۔ پاکستان میں قومی وسائل کی تقسیم کا کوئی متفقہ فارمولا نہیں ہے، جس کی وجہ سے صوبے غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ آخری این ایف سی ایوارڈ کا اجراء دسمبر 2014 میں ہوا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت نے اس اہم قومی ایشو کو بھی کسی پارٹی یا ادارے کا ایشو قرار دے کر نظر انداز کیے رکھا۔ قومی وسائل کی تقسیم پر صوبوں کا اتفاقِ رائے فیڈریشن کی مضبوطی کا باعث ہوگا۔ تاہم اس حوالے سے وفاق کی سرد مہری نے نہ صرف صوبوں کو معاشی بحران سے دوچار کیا ہوا ہے بلکہ یہ صوبوں اور وفاق کے درمیان تعلقات کی خرابی کی بنیادی وجہ بھی ہے۔