اسلام آباد(نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفادار رہنا ہے یا نہیں،کیا کوئی رکن ڈیکلریشن دیتا ہے کہ پارٹی ڈسپلن کا پابند رہے گا؟پارٹی کے اندر جمہوریت ہو تو آرٹیکل 63 اے کی ضرورت نہیں رہتی۔آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے جمعہ کو بھی سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جو جرم ابھی سرزد ہی نہیں ہوا اس کی سزا کے بارے میں کیسے رائے دے دیں،جب پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار ہے تو پھر منحرف اراکین کی سزا کے بارے میں تفصیلی بات کیوں نہیں کی گئی، آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف ارکان کی سزا صرف ڈی سیٹ ہونے کی دی گئی ہے جبکہ اس میں تاحیات نااہلی کا ذکر نہیں ہے۔انہوں نے استفسارکیا کہ اگر وزیراعظم آئین کی خلاف ورزی کرے یا غلط کام کرے تو کیا ممبر پھر اس کے ساتھ وفاداری نبھائے؟ اگر وزیراعظم ملک کی سلامتی کے خلاف کارروائی کرے تو میں اس سے اختلاف نہیں کرسکتا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سر وزیراعظم کا ذکر چھوڑ دیں، یہاں ان کا ذکر نہیں ہورہا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم اور رکن اسمبلی کے حلف میں فرق ہے، اراکین اسمبلی اگر پارٹی فیصلے سے متفق نہ ہوں تو مستعفی ہوا جاسکتا ہے اور پارٹی اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت کے خلاف جایا جائے، جب فوجی عدالتیںبنیں تو رضا ربانی نے ذاتی اختلاف کے باوجود پارٹی ڈسپلن کے تحت اس کے حق میں ووٹ دیا۔جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے اختلاف کرنے والا استعفا کیوں دے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والا جماعت کے ڈسپلن کا بھی پابند ہوتا ہے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ آئین پاکستان ہر شخص کو اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا حق دیتا ہے تو کیا خیالات کے اظہار پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے؟انہوں نے کہا کہ کیا مناسب نہ ہوتا کہ صدر پارلیمانی جماعتوں کا بلا کر مشورہ کرتے، کیا عدالت سے پہلے سیاسی جماعتوں سے مشورہ کرنا مناسب نہیں ہوتا؟ پارلیمانی جماعتوں سے مل کر آئین میں ترمیم ہو سکتی تھی۔ اس پر اٹارنی جنرل بولے کہ غلام اسحاق خان اسی طرح سب کو بلایا کرتے تھے۔ جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ابھی تو کسی نے انحراف کیا ہی نہیں آپ ریفرنس لے آئے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جرم کو ہونے سے روکنا مقصد ہے۔ جسٹس مظہر نے کہا کہ جرم ہونے سے پہلے سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل بولے کہ قانون واضح کرنے کے لیے عدالت آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو بتانا ہوگا کہ رکن تاحیات نااہل کب ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جرم ہو تو سزا دینے کے لیے قانون واضح ہونا چاہیے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین کی تشریح کرنا ہی اس عدالت عظمیٰ کا کام ہے۔جسٹس جمال خان نے کہا کہ پارٹی سے انحراف کرنے والے کے خلاف الیکشن کمیشن کا فورم موجود ہے،صدر مملکت کو ایسا کیا مسئلہہے جو رائے مانگ رہے ہیں؟ صدر کے سامنے ایسا کون سا مواد ہے جس پر سوال پوچھے؟ تو اٹارنی جنرل بولے کہ عدالت صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ صدر نے آئین کی تشریح کا کہا ہے ہم تشریح سے ادھر ادھر نہیں جاسکتے اور ممکن ہے ریفرنس واپس بھیج دیں۔جسٹس جمال نے کہا کہ اگر تمام جماعتیں متفق ہیں تو آئین میں ترمیم کرلیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین ازخود نہیں بلکہ عدالتوں کے ذریعے بولتا ہے، آئین کی درست تشریح عدالت ہی کرسکتی ہے۔جسٹس جمال نے کہا کہ کیا آرٹیکل 63 اے آزادی اظہار رائے پر پابندی نہیں؟ تو اٹارنی جنرل بولے کہ دفعہ 302 بھی قتل سے نہیں روکتی لیکن جیل جانا پڑتا ہے۔جسٹس مندوخیل نے کہا کہ قتل تو 302 کی سزا کے باوجود بھی ہو رہے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت آج تک کوئی نااہل نہیں ہوا، آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر پیسے لینا ثابت کرنا ضروری نہیں۔بعد ازاں صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی ہوگئی۔