ججز پر انگلیاں اٹھانا اور الزامات لگانا بند کریں، چیف جسٹس

316

اسلام آباد:  چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ ججز پر انگلیاں اٹھانا اور الزامات لگانا بند کردیں، جس بندے پر اعتراض ہے اس کا نام لیں، ججز کو سرکاری ملازم کہنا انتہائی غیرمناسب بات ہے۔

جسٹس قاضی امین کے اعزاز میں دیے گیے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس قاضی امین نے فوجداری مقدمات میں تاریخی فیصلے دیئے، جسٹس قاضی امین نے گواہان کے تحفظ کی ریاستی ذمہ داری کو فیصلوں میں اجاگر کیا، معزز جج نے کبھی تکنیکی نکات کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اس کے علاوہ خواتین کے حقوق کیلئے جسٹس قاضی امین نے تاریخی فیصلے دئیے۔

چیف جسٹس نے پاکستان بار کونسل کے ممبران کی تقریروں پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ججز پر انگلیاں اٹھانا اور الزامات لگانا بند کر دیں، جس بندے پر اعتراض ہے اس کا نام لیں، جس شخص سے مسئلہ ہو آکر مجھے بتائیں، دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ ججز کو سرکاری ملازم کہا گیا، سپریم کورٹ میں ججز انتہائی قابل اور پروفیشنل ہیں، ججز کو سرکاری ملازم کہنا انتہائی غیرمناسب بات ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ججز رولز کمیٹی میں میرے برابر جج نے طریقہ کار پر اتفاق رائے کیا، ججز کے لیے سب سے اہم ان کی دیانتداری، اہلیت اور قابلیت ہے، جج کا تحمل اور اس کی ہر قسم کے اندرونی یا بیرونی دباؤ سے آزادی اہم ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ براہ راست مجھ سے آکر بات نہیں کر سکتے تو آپ محض اخباروں کی زینت بننا چاہتے ہیں، بنچ تشکیل دینے کا اختیار ہمیشہ سے چیف جسٹس کا رہا ہے، بیس سال سے بنچز چیف جسٹس ہی بناتے ہیں احسن بھون کس روایت کی بات کر رہے ہیں؟۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں اہلیت، قابلیت اور دیانتداری کی وجہ سے ہیں، ہماری تقرری غیرجانبدارانہ ہوتی ہے، ہم بنا کسی دباؤ کے کام کرنے والے لوگ ہیں، میرے رجسٹرار کو گالیاں دینا بند کریں، میرے رجسٹرار کا 20 سالہ تعلیمی تجربہ ہے، کیا آپ چاہتے ہیں رجسٹرار کا کام بھی میں کروں؟ اگر آپ کو کوئی مسسئلہ ہے تو مجھ سے آ کر بات کریں، اپنے آپ کو بے وقعت نہ کریں، اپنا مقام دیکھیں، اپنا منصب دیکھیں، مجھے آپ کا تعاون درکار ہے، برائے مہربانی مجھے اپنا کام کرنے دیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے صدر پاکستان بار کونسل احسن بھون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کون سی عدالتی پریکٹس پر اعتراض ہے؟ میرے دروازے آپ کے لیے رات 9 بجے بھی کھلے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فروری اور مارچ میں سپریم کورٹ 4 ہزار مقدمات کا فیصلہ کرچکی ہے، عدالت عظمیٰ میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد میں ایک ہزار تک کمی آئی، زیرالتواء مقدمات نمٹانے پر ساتھی ججز اور وکلا کا مشکور ہوں،انشاءاللہ عدالت اپنا آئینی کردار ادا کرتی رہے گی۔