! آل پارٹیز کشمیر کانفرنس اور تحریک آزادی کشمیر

290

صدر آزاد ریاست جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چودھری صدارت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے بیس کیمپ کی قیادت اور عوام کو متحرک کرنا شروع کردیا اس سلسلے میں آزادجموں وکشمیر کی تمام جماعتوں کو آل پارٹیز کانفرنس کے پلیٹ فارم پر جمع کرکے سب سے پہلے اسلام آباد میں ریلی کا اہتمام کیا جبکہ اس تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے دوسرا پروگرام دارالحکومت مظفرآباد میں منعقد کیا گیا جس میں وزیر اعظم آزادکشمیر، تمام جماعتوں کی قیادت، سابق وزرائے اعظم، سابق صدر شریک ہوئے۔
صدر ریاست بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے اپنے خطاب میں کہا کہ آزادکشمیر کے دیگر مقامات پر بھی یہ کانفرنسیں منعقد کی جائیں گی اور پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی ریلیوں کا انعقاد کیا جائے گا اور با لآخر ہم سیز فائر لائن کی طرف مارچ کریں گے، سیز فائر لائن کو دیوار برلن کی طرح اپنے پائوں تلے روند ڈالیں گے۔ جبکہ وزیر اعظم آزاد کشمیر عبدالقیوم نیازی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیر ایک وحدت ہے تقسیم ناقابل قبول ہے مسئلہ کشمیر پر ہم سب متحد و متفق ہیں اور ہمیں آزادکشمیر کو حقیقی معنوں میں بیس کیمپ بنانا ہے جبکہ دیگر تمام قائدین راجا فاروق حیدر خان، چودھری لطیف اکبر، سردار عتیق احمد خان، عبدالرشید ترابی سمیت تمام تمام زعماء نے تقسیم کشمیر کی مخالفت کی اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے جانے کے اقدام پر مزاحمت کرنے کا اعادہ کیا۔
تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے یہ ایک بڑا پروگرام تھا بڑا اس لیے کہ آزادکشمیر کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس میں شریک تھیں البتہ پروگرام میں مہاجرین جموں وکشمیر کے علاوہ عام شہریوں اور سرکاری ملازمین کی عدم شرکت کی وجہ سے جلسہ گاہ کی کرسیاں خالی تھیں۔ پروگرام کے لیے منصوبہ بندی کا فقدان تھا۔ بہر حال پروگراموں کے حوالے سے بیرسٹر سلطان محمود چودھری متحرک رہے ان کی کاوش لائق تحسین ہے۔ ماضی میں سفارتی سطح پر بھی کافی متحرک رہے، سفراء سے ملاقاتیں کرنا اور کشمیر کی تشویشناک صورت حال سے آگاہ کرنا ان کا خاصہ رہا اسی طرح بین الاقوامی سطح پر برطانیہ، یورپ اور امریکا میں انہوں نے بڑے موثر پروگرامات منعقد کیے بہر حال عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر سے روشناس کرانا اور اس کے حل کے لیے متوجہ کرنا ان کا کردار رہا جس کا ہر کوئی معترف ہے۔
صدر ریاست کا منصب سنبھالنے کے بعد قومی سطح پر حکومتی اختیارات کو برئوے کار لاکر متحرک ہو گئے ہیں جو کہ خوش آئند ہے اسی طرح وزیر اعظم آزادکشمیر نے کشمیر کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم سب ایک ہیں اور کشمیر ایک نا قابل تقسیم وحدت ہے وہ قابل تعریف ہے وزیر اعظم کی جانب سے آزادکشمیر کو صحیح معنوں میں آزادی کا بیس کیمپ بنانے کا اعلان مبالغہ آرائی ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بیس کیمپ تو دور کی بات ہے حکومت آزادکشمیر نے تحریک آزادی کشمیر کو اپنی حکومت میں پہلی ترجیح بھی نہیں دی ہے ماضی میں بھی سابق وزیر اعظم راجا فاروق حیدر خان بھی کہتے رہے کہ آزادی کشمیر ہماری ترجیح اول ہے لیکن نہ اس وقت نہ اب یہ آخری ترجیح بھی نہیں ہے آزادکشمیر کو حقیقی بیس کیمپ بنانا اور تحریک آزادی کشمیر کو ترجیح اول رکھنا اس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے فی الحال وہ ہمارے پاس نہیں ہے تحریک آزادی کشمیر کا سیاسی طور پر ہم نام لیتے ہیں اور کبھی کبھار کوئی جلسہ کانفرنس کا انعقاد کرلیتے ہیں ایک عدد لبریشن سیل جو حکومت کے ایماء پر چلتا ہے آزادی سے زیادہ حکومتی پروگرامات ترتیب دیتا ہے بس ایسی تحریک آزادی کشمیر کے لیے کاوش ہے بلا ان نمائشی اور سیاسی پروگرامات سے کشمیر آزاد ہوسکتا ہے قطعاً نہیں اس کے لیے آگ اور خون کے دریا سے گزرنا ہو گا اس کے لیے آزادکشمیر کی قیادت تیار نہیں ہے جب قیادت تیار ہو گی تو کشمیر آزاد ہو جائے گا۔ ہم اپنی قیادت سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ سب مل کر اسے آزادی کا بیس کیمپ بنائیں جس کا مقصود صرف اور صرف آزادی ہو یہ ہو جائے تو آزادی کا نصف کام ہو جائے گا، آزادکشمیر اگر حقیقی معنوں میں آزادی کا بیس کیمپ ہو جہاں مجاہدین کے کیمپس ہوں جہاں پر سامان حرب اکھٹاکیا جائے اور قافلے مقبوضہ کشمیر روانہ ہوں یہاں کے وسائل آزادی کی جدوجہد میں خرچ کیے جائیں لیکن یہاں صرف زبانی جمع خرچ ہے قراردادیں ہیں بیانات جلسے جلوس اور ریلیاں ہیں بیرون ملک دورے ہیں، ان پروگرامات کے ذریعے کشمیرکو آزاد کرانا چاہیں تو یہ بھول ہو گی 74سال سے ہم یہی کرتے رہے ہیں کیا کشمیر آزاد ہوگیا؟ ہندوستان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا وہ کشمیر کو ضم کرنے کے لیے قتل عام کی پالیسی پر گامزن ہے، گزشتہ ہفتے ہی تقریباً 20افراد کو شہید کردیا گزشتہ 960 دنوں سے اس کی 9لاکھ درندہ صفت افواج نے کشمیر کا محاصرہ کررکھا ہے اور اہل کشمیر کو جینے کے حق سے بھی محروم کررکھا ہے ان کی زندگی ان کی عزت اور ان کی جائداد سب کچھ ملیا میٹ کردیا جاتا ہے حتیٰ کہ ہزاروں نوجوانوں کو پابند سلاسل کیا ہوا ہے اس لیے ہمیں کاغذی کارروائیوں سے ہٹ کر آزادی کے حقیقی پروگرام کی طرف آنا چاہیے کشمیر صرف اور صرف جہاد سے آزاد ہوگا جہاد کے لیے نہ ہماری قیادت تیار ہے نہ پاکستان کی قومی قیادت اور نہ افواج پاکستان تیار ہیں بلکہ سب کی نظر کشمیرکی آزادی کے بجائے مظفرآباد اور اسلام آباد کی کرسی پر ہے۔