برصغیر کی تاریخ کا اہم سنگ میل

640

پورے بیاسی سال قبل چوبیس مارچ کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے بر صغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ گو قرار داد لاہور کو عام طور پر قرار داد پاکستان کہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قرارداد میں کہیں بھی پاکستان کا نام رقم نہیں تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قرارداد میں برصغیر میں مسلمانوں کی واحد مملکت کے بجائے مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس میں چھے سال بعد اس انداز سے ترمیم کی گئی کہ اس پر بنگال کے رہنما سراپا احتجاج بن گئے تھے۔ ان اہم پہلووں کے تفصیلی ذکر سے پہلے ان حالات اور پس منظر پر نظر ڈالنی بہت ضروری ہے جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ تاریخی اجلاس منعقد ہوا۔
برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے پہلے مرحلے میں انیس سو 36-37 میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم لیگ کو بری طرح سے ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اور اس کے اس دعوے کو شدید زک پہنچی تھی کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے اور ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم تھا۔ کانگریس کو مدراس، یوپی، سی پی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی، سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اور سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان حاوی تھے کانگریس کو نمایاں کامیابی ملی تھی۔ پنجاب میں البتہ سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی پرجا کرشک پارٹی کو جیت ہوئی تھی۔ غرض ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہو سکا تھا ان حالات میں مسلم لیگ کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ برصغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوتی جارہی ہے۔ اس دوران کانگریس نے جو پہلے ہی اقتدار کے نشے میں کچھ زیادہ ہی سر شار تھی ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کی دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کردیا۔ مثلاً کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیا۔ گائو کشی پر پابندی عاید کر دی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دی۔ اس صورت میں مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہو رہا تھا مسلم لیگ اقتدار سے اس بنا پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دوجدا قوموں کے احساس کی بیداری کا۔
اسی پس منظر میں لاہور میں آل انڈ یامسلم لیگ کایہ تین روزہ اجلاس 22 مارچ کو شروع ہوا۔ اجلاس سے چار روز قبل لاہور میں علامہ مشرقی کی خاکسار جماعت نے پابند ی توڑتے ہوئے عسکری پریڈ کی جس کو روکنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی جس میں 35 خاکسار جہاں بحق ہوگئے۔ اس بات کا شدید خطرہ تھا کہ خاکسار مسلم لیگ کے اجلاس پر ہلہ بول دیں۔ موقع کی نزاکت کے پیش نظر قائد اعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خود خطاب کرنے کا فیصلہ کیا جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ یہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان فرق اتنا واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علاحدہ مملکتیں ہوں۔ دوسرے دن انہی خطوط پر 23 مارچ اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قابل قبول ہوگا۔
یہ قابل ذکر بات ہے کہ اس قرارداد میں پاکستان کا قطعی کوئی ذکر نہیں تھا یہ در اصل ہندو پریس تھا جس نے دوسرے روز نمایاں طور پر اسے قرارداد پاکستان کا نام دیا۔ یہ نام در حقیقت انگلستان میں مقیم ایک وکیل چودھری رحمت علی نے برصغیر میں مسلم اکثریت والے علاقوں پر مشتمل ایک الگ مملکت کے قیام کے بارے میں اپنے منصوبہ میں تجویز کیا تھا۔ اس وقت تک مسلم لیگ نے اس نام کو قبول نہیں کیا تھا اور لاہور اجلاس میں مسلم لیگی قیادت کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ قرارداد میں جس مملکت کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں اس کا نام پاکستان ہوگا۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ چودھری رحمت علی لاہور میں مسلم لیگ کے اس اجلاس میں شرکت کے لیے کیمبرج سے ہندوستان کے لیے روانہ ہوئے تھے اور ابھی کراچی پہنچے تھے کہ انہیں لاہور جانے سے روک دیا گیا اور ملک بدر کر دیا گیا۔ غالباً بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہے کہ قرار لاہور کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلیٰ سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا یہ پارٹی اس زمانہ میں مسلم لیگ میں ضم ہوگئی تھی اور سر سکندر حیات خان پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے۔ سر سکندر نے اصل مسودہ میں برصغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب یہ مسودہ مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا توقائد اعظم نے کنفیڈریشن کا ذکر کاٹ دیا۔