ہم اور پاکستان

996

پاکستان کے قیام کا مقصد محض ایک ریاست کے حصول تک محدود نہیں تھا، بقول قائد اعظمؒ ’’ہمارے پیش نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختارمملکت کا قیام ہے جس میں مسلمان اپنے دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں‘‘۔ بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنے قریباً 114خطابات اور تقریروں میں دو ٹوک الفاظ میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کا آئین و دستور قرآن و سنت کے تابع ہوگا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کا دستورکیسا ہوگا تو انہوں نے فرمایا کہ ہمیں کسی نئے دستور اور آئین کی ضرورت نہیں، ہمارا دستور وہی ہے جو قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہمیں عطا کردیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا کہ ہم محض ایک خطہ ٔ زمین کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر پاکستان حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں اور اسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر اپنا سکیں۔ جب تک قوم بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے فرمودات پر عمل پیرا ہوکر علامہ اقبال ؒ کے خواب کی تعبیر حاصل نہیں کر لیتی، قیام پاکستان کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔
پاکستان کا قیام کسی وقتی جوش یا جذباتی سوچ کا بھی نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے محسن انسانیت سیدنا محمدؐ کی رہنمائی میں قائم ہونے والی مدینہ کی اس اسلامی و فلاحی ریاست کا نمونہ اور سوچ کارفرما تھی جس میں ایک عام شہری کو بھی حاکم وقت کے برابر حقوق حاصل تھے۔ امن و امان کی صورتحال یہ تھی کہ سونے چاندی سے لدی پھندی ایک عورت بلا خوف و خطر صنعاء سے حضر موت تک سیکڑوں میل کا سفر تن تنہا طے کرتی تھی اور کسی میں جرأت نہیں تھی کہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے۔ فرمانروائے مملکت عوام کی خبر گیری کے لیے راتوں کوگشت کرتے تھے اور حاجت مندوںکی حاجت روائی کے لیے خدمت کے جذبہ سے سرشار، عوام کے خادم، اللہ کے سامنے جواب دہی کے خوف سے تھر تھر کانپنے والی ریاستی مشینری ہمہ وقت مصروف عمل نظر آتی تھی۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت میں کوئی زکواۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔
قوم کو پاکستان کی اساس سے جوڑنا اور نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کرانا دینی و سیاسی قیادت کی اولین ذمے داری ہے۔ پاکستان مدینہ منورہ کے بعد کرۂ ارض پر اسلام کے آفاقی و غیر فانی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آنے والی دوسری مملکت خدا داد ہے، پاکستان کا قیام بلاشبہ بیسویں صدی کا عظیم معجزہ ہے، اس عطیہ خداوندی کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے، پاکستان کے حصول کے لیے ہمارے آبائو اجداد کو ناقابل فراموش قربانیاں دینا پڑیں اور آگ اور خون کے جس دریا سے گزرنا پڑا، وہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ قومیں اپنے نظریات کی بنا پر زندہ رہتی ہیں، اپنے اسلاف کے طے کردہ نشانات منزل کو گم کردینے اور اپنے نظریات کو فراموش کر بیٹھنے والوں کا وجود زمین زیادہ دیر برداشت نہیں کرتی اور وہ حرف غلط کی طرح مٹا دیے جاتے ہیں۔ پاکستان اپنے نظریہ کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم! ان جذبوں کو نوجوان نسل کے دل و دماغ میں راسخ کرنے، وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنانے اور اس کے حصار کو مستحکم تر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت اس انداز میں کی جائے کہ وہ نظریہ پاکستان کو اپنی زندگیوں کا مرکز ومحور بنا لیں اور کسی لمحہ بھی اس عظیم مقصد اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔
قومی سوچ اور حب الوطنی کے جذ بات کو پروان چڑھانے میں 23مارچ کا دن بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آئندہ نسلوں کو قیام پاکستان کے اعلیٰ و ارفع مقاصد سے ہم آہنگ کرنے اور مملکت خداداد کو ایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دامے درمے سخنے تحریک پاکستان اور پاکستان کے حصول کے لیے دی گئی بے مثال قربانیوں کی یاد کو زندہ و جاوید رکھیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک پاکستان کی طرز پر قوم ’’تحریک تکمیل پاکستان‘‘ کا آغاز کردے تاکہ نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکے۔ کسی بھی مملکت کے نظام کو چلانے کے لیے آئین و قانون کی بالادستی اور حکمرانی انتہائی اہمیت رکھتی ہے قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن، غربت، جہالت، عدم توازن اور انتہا پسندی جنم لیتی ہے اور احتساب کے بغیر قانون کی حکمرانی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ ہمارے عوام کی اکثریت صرف اس لیے اپنے حقوق سے محروم ہے کہ انہیں اپنی ذمے داریوں اور حقوق کا ادراک نہیں اور اقتدار پر مسلط جاگیر دار، وڈیر ے اور سرمایہ دار سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام کو جہالت کی تاریکیوں کا اسیر اور قومیت، لسانیت اور مسلکوں کے تعصبات ابھار کر تقسیم در تقسیم رکھنا چاہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ترقی و خوشحالی کے مغربی تصور کے سراب سے باہر نکلیں اور ریاست مدینہ کے اس تصور کو اپنے ذہنوں میں بٹھائیں جس پر چلتے ہوئے ہمارے اسلاف نے فلاح انسانیت کی معراج کو حاصل کیا تھا۔ اپنی آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں قرآن و سنت کے احکامات کو راسخ اور اسی کو بنیاد بنا کر نظریہ پاکستان کی آبیاری کریں۔
پاکستان کے نظریے کو سمجھنے کے لیے آئن اسٹائن کے دماغ یا افلاطون کی ذہانت کی ضرورت نہیں یہ بہت ہی سادہ اور آسان سی بات ہے کہ مسلمان دوسری قوموں سے ایک بالکل الگ قوم ہیں، ہندوئوں اور سکھوں کے ساتھ سیکڑوں سال اکٹھے رہنے کے باوجود مسلمان معاشرت، تہذیب و تمدن، معیشت، اور زندگی گزارنے کے دیگر تمام شعبوں میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے تھے۔ اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کے ذہن میں اپنا وہ شاندار ماضی اور عزت و وقار اجاگر کرسکیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم قیام پاکستان کے وہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوں جن کے لیے ہمارے بزرگوںنے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا۔