بھارت کا آئین حجاب سمیت کسی مذہب کے احکام پر پابندی کی اجازت نہیں دیتا

816

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) بھارت کے صوبہ کرناٹک کی ہائی کورٹ کا حجاب پر پابندی کا فیصلہ سراسر تعصب پر مبنی ہے‘ بھارتی آئین کی روح کے برعکس اور انتہا پسند مودی حکومت کی پالیسی کی پیروی ہے۔ ان خیالات کا اظہار قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سابق رکن، جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی رہنما محترمہ سمیحہ راحیل قاضی، بزرگ دانشور، ممتاز کالم نویس اور بزم اقبال کے ڈائریکٹر ریاض احمد چودھری اور پاکستان ریلوے ایمپلائز (پریم) سودا کار یونین کے چیئرمین، لاہور بار ایسوسی ایشن کے سابق نائب صدر ضیا الدین انصاری ایڈووکیٹ نے روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا بھارت کا سیکولر آئین حجاب پر پابندی کی اجازت دیتا ہے؟ سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ بھارت کا آئین اور سیکولر نظریہ حجاب سمیت کسی بھی مذہب کے احکام اور اقدار و روایات پر پابندی کی اجازت نہیں دیتا مگر بھارت کی فاشسٹ مودی حکومت کے بارے میں ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ کسی آئین و قانون کو مانتی ہے نہ خود کو اس کی پابند سمجھتی ہے وہ کشمیر اور بھارت کے مسلمانو ں کے بارے میں جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے‘ بھارتی مسلمانوں کے لیے علامہ اقبال کی یہ دعا حقیقت کے بہت قریب ہے کہ ؎ خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے… کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں۔ بھارتی مسلمانوں سے جب کبھی بات ہوتی ہے تو وہ اپنے ملک اور حکومت کے بارے میں ہمیشہ اچھے خیالات کا اظہار کرتے ہیں مگر ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمارے بزرگوں اور قائد اعظم نے ہمیں پاکستان کی نعمت لے کر دی کیونکہ بھارت میں کوئی اقلیت محفوظ نہیں‘ بھارت کی کوئی حکومت اقلیتوں کے لیے موافق نہیں رہی مگر مودی کی حکومت تو کھلم کھلا ’ہندتوا‘ کی علم بردار ہے جس نے بھارتی سیکولر ازم کے بارے میں دنیا کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ میسور کی بیٹی مسکان نے جب حجاب کے ساتھ نعرہ تکبیر بلند کیا تو خوشگوار حیرت ہو ئی کہ ہندو سماج کے بعض انصاف پسند حلقوں نے بھی اس کے حق میں آواز بلند کی۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے حجاب سے متعلق فیصلے سے مایوسی میں اضافہ ہوا ہے تاہم یہ کوئی اچنبھا نہیں ہوا کیونکہ بھارتی عدالتوں کی طرف سے پہلے بھی کشمیری اور مسلمانوں کے بارے میں اسی قسم کے فیصلے دیے جاتے رہے ہیں‘ اس لیے کسی غیر ہندو کو بھارتی عدالتوں سے انصاف کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ریاض احمد چودھری نے بتایا کہ بھارتی ہائی کورٹ کا حجاب سے متعلق فیصلہ بھارتی آئین کے قطعی منافی ہے اسی لیے مسلمانوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں اور بعض سیکولر رہنمائوں نے بھی اسے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے‘ ہائی کورٹ کا فیصلہ انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے‘ بھارت کا آئین ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے دینی احکام اور اقدار و روایات پر عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے‘ اسلامی کانفرنس تنظیم نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے‘ امریکی کانگریس اور سینیٹ ارکان، برطانوی پارلیمنٹ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بھی حجاب کے خلاف بھارتی عدالت کے فیصلے پر تنقید کی جا رہی ہے‘ بھارت زبانی دعوئوں اور آئینی طور پر تو ایک سیکولر ریاست ہے مگر عملاً یہ اس وقت انتہا پسندانہ سوچ کی حامل متعصب تنظیموں کے کنٹرول میں ہے چنانچہ آئے روز اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو ان کے متعصبانہ اقدامات اور جارحیت کا نشانہ بننا پڑتا ہے‘ صرف سکھ اقلیت کافی حد تک محفوظ ہے کیونکہ وہ منظم ہے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے‘ مسلمان بھارتی آبادی کا دوسرا بڑا حصہ ہیں لیکن غیر منظم ہونے کے باعث کانگریس کے 543 ارکان میں سے صرف 27 مسلمان ہیں۔ ضیا الدین انصاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ سراسر تعصب پر مبنی اور بھارت کی انتہا پسند حکومت کی پالیسی کی پیروی ہے جس میں حجاب کو اسلام سے منسلک کیا گیا ہے حالانکہ حجاب خواتین کی عزت و حرمت کے تحفظ کا ضامن ہے‘ اٹلی میں جب حجاب پر پابندی کا بل پیش کیا گیا تو وہاں کے سابق وزیر قانون نے یہ کہہ کر اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ میں نے حضرت مریم کی جتنی بھی تصاویر دیکھی ہیں ان میں وہ حجاب میں ملبوس نظر آتی ہیں۔ بھارتی حکومت نے اپنی ہٹ دھرمی سے حجاب کو مسلمانوں سے منسوب کر دیا ہے حالانکہ بھارت سیکولر ریاست ہونے کا دعویدار ہے اور اس کا اپنا آئین ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنی مذہبی اقدار و روایات پر عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے اور کسی مذہب کے احکام میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا‘ کل اس رویے کے تحت سکھوں کی پگڑی اور کرپان وغیرہ پر بھی پابندی لگائی جا سکتی ہے‘ کرناٹک ہائی کورٹ واضح طور پر اسلامو فوبیا کی شکار ہوئی ہے‘ توقع ہے کہ بھارتی عدالت عظمیٰ اس فیصلے کو ابتدائی مرحلے ہی میں آئین کے خلاف اور کالعدم قرار دے دے گی۔