پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کو تو اس کا قطعی احساس ہے کہ چنداں پروا مگر اسے پارٹی کی بدقسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ شاید ہی کوئی خوش قسمت ہو جو پارٹی کے ابتدائی ایام میں اس کا حصہ رہا ہو اور اسے آج بھی پارٹی میں کوئی اہمیت حاصل ہو، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان میں سے غالب اکثریت سیاست میں پارٹی سے اپنی راہیں الگ کر چکی ہے یا ایسا کرنے پر مجبور کی جا چکی ہے، پارٹی کے ایسے ہی ابتدائی نمایاں لوگوں میں ایک ڈاکٹر مبشر حسن بھی تھے، جو 14 مارچ 2020ء کو کم و بیش ایک صدی پر محیط بھر پور زندگی گزارنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، خدا رحمت کرے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں…!
ڈاکٹر مبشر حسن 22 جنوری 1922ء کو پانی پت میں پیدا ہوئے، وہاں سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعہ پنجاب لاہور سے 1947ء میں، قیام پاکستان کے برس، بی ایس سی سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور لاہور اور ڈھاکا کی انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض ادا کرتے رہے۔ 1960ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے عازم امریکا ہوئے جہاں سے پہلے ایم ایس سی اور پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ امریکا سے واپسی پر ملکی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی اور سماجی مساوات کی بنیاد پر عوامی انقلاب کو اپنا مطمح نظر بنایا اس دوران ذوالفقار علی بھٹو سے بہت زیادہ قربت اور وابستگی ہو گئی۔ بھٹو نے جب ایوب خاں کی کابینہ سے الگ ہو کر اپنی سیاسی جماعت بنانا چاہی جن اولین لوگوں نے ان کا ساتھ دیا ڈاکٹر مبشر حسن ان میں خاصے نمایاں تھے، بھٹو نے پیپلر پارٹی کی تاسیس کے لیے لاہور میں اجلاس منعقد کرنا چاہا تو فیلڈ مارشل ایوب خاں کے خوف کے باعث شہر کا کوئی ہوٹل انہیں اجلاس کے لیے جگہ دینے پر تیار نہیں ہوا جس پر ڈاکٹر مبشر حسن نے گلبرگ میں مین مارکیٹ کے سامنے اپنی وسیع رہائش گاہ اس مقصد کے لیے پیش کر دی چنانچہ پیپلز پارٹی کا تاسیسی اجلاس 30 اکتوبر 1967ء کو ان کے گھر پر منعقد ہوا جس میں بھٹو صاحب کو پارٹی کا چیئرمین بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور جے اے رحیم پارٹی کے پہلے سیکرٹری جنرل بنائے گئے جب کہ ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنے لیے صرف لاہور کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ قبول کیا اور پھر پارٹی کو منظم اور مقبول بنانے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر دیا۔ 1970ء کے عام انتخابات میں وہ لاہور سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے بعد ازاں جب سقوط مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں فوج نے اقتدار پیپلز پارٹی کے حوالے کیا تو ڈاکٹر مبشر حسن بطور وفاقی وزیر خزانہ بھٹو کابینہ کے حصہ بنے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ بھٹو نے انتخابات سے قبل معاشی اور معاشرتی مساوات کا جو نعرہ بلند کیا تھا، غریبوں کی محرومیاں دور کرنے اور انہیں ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کی فراہمی کا جو وعدہ کیا تھا، بھٹو کی عملی پیش رفت اس جانب نہیں تو 1974ء میں وزارت سے الگ ہو کر اسلام آباد سے لاہور اپنے گھر آ گئے تاہم پارٹی سے علٰیحدگی اختیار نہیں کی اسی دوران جب پارٹی کے اولین سیکرٹری جنرل جے اے رحیم کے چیئرمین بھٹو سے اختلافات ہوئے تو بھٹو نے ان کی جگہ ڈاکٹر مبشر حسن کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل نامزد کر دیا چنانچہ ڈاکٹر مبشر حسن ایوان اقتدار کی بھول بھلیوں کو بھول کر پارٹی کی تنظیمی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہو گئے۔ بھارت کی جانب سے ایٹم بم بنانے کی اطلاعات پر جب بھٹو نے بھی 1972ء میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے تحت اپنے جوہری منصوبے پر کام کا آغاز کیا تو 1974ء میں ڈاکٹر مبشر حسن کو وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق امور کا مشیر مقرر کیا اس دوران ڈاکٹر مبشر حسن نے بیرون ملک پاکستان مقیم ڈاکٹر عبدالقدیر خاں سے وزیر اعظم بھٹو کا رابطہ کرایا جنہوں نے بعد ازاں پاکستان آ کر اس منصوبہ کو سنبھالا اور شب و روز محنت و کاوش سے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا اور ملک نے دفاعی صلاحیت میں ایک نیا سنگ میل عبور کیا…!
1977ء میں جب عام انتخابات میں دھاندلی کے نتیجے میں مسٹر بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفی برپا ہوئی اور 5 جولائی کو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا خاتمہ کر کے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا تو ڈاکٹر مبشر حسن کو بھی بھٹو کے ساتھ اڈیالہ جیل میں رکھا گیا جہاں وہ بھٹو کو سزائے موت دیے جانے کے بعد بھی سات سال تک قید رہے۔ تاہم جیل سے رہائی کے بعد بے نظیر بھٹو کی پارٹی میں ذوالفقار علی بھٹو جانشینی کے بعد وہ ان کی پالیسیوں سے اتفاق نہ کر سکے اور اپنی راہیں جدا کر کے انہوں نے بے نظیر کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ میں جب مرتضیٰ بھٹو کو ان کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر قتل کر دیا گیا تو ڈاکٹر مبشر حسن مرتضیٰ کی بیوہ غنویٰ بھٹو کے دست و بازو بنے اور ان کی قیادت میں پیپلز پارٹی (ش ب) کے سیکرٹری جنرل کے طور پر پارٹی کو ملک بھر میں منظم کرنے کے لیے خاصی محنت کی تاہم خاطر خواہ کامیابی ان کے حصے میں نہ آ سکی جس کا بڑا سبب یہ تھا کہ وہ معاشرتی اونچ نیچ کے قائل تھے نہ برادری ازم پر یقین رکھتے تھے اور نہ علاقائی و لسانی تعصبات کے حامی تھے چنانچہ کوئی جاگیردار، سرمایہ دار اور صنعت کار ان کے ساتھ کھڑے ہونے پر تیار نہیں ہوا…!
ڈاکٹر مبشر حسن نے پاکستان اور بھارت کے مابین دوستی کے رشتے استوار کرنے اور نفرت کی دیواریں گرانے کے لیے بھی خاصی کوششیں کیں اور عوامی سطح پر دو طرفہ روابط کو فروغ دینے کے لیے اپنے ہم خیال اہل فکر و دانش کی تنظیم بھی قائم کی جس کے تحت صحافیوں، دانشوروں اور عوامی نمائندوں کے کئی وفود کو بھارت کا دورہ کرایا اور ایسے ہی بہت سے بھارتی وفود کی میزبانی بھی کی ایک زمانے میں دو طرفہ عوامی روابط کے فروغ میں انہوں نے خاصی پیش رفت بھی کی مگر آخر انہیں خصوصاً نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں وہ بالکل مایوس ہو گئے اور اپنی سرگرمیاں ترک کر کے خاموشی اختیار کر لی…!
صحافتی ذمے داریوں کی ادائیگی کے دوران راقم الحروف کو بارہا ڈاکٹر مبشر حسن سے رابطوں کا موقع ملا وہ جب کبھی اپنے گھر پر یا پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے تو ذاتی طور پر فون کر کے اطلاع دیتے وہ مجھے ’’ڈوگر‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے اور اطلاع دیتے کہ کل فلاں جگہ فلاں وقت میری پریس کانفرنس ہے تم نے ضرور آنا ہے اور میں عموماً ان کے حکم کی تعمیل کرتا۔ روزنامہ ’’جسارت‘‘ اور ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے لیے ان سے متعدد بار انٹرویوز بھی کیے، میں عام طور پر رات کے وقت اپنے دفتر سے ان کے گھر کے نمبر پر ان سے رابطہ کرتا، وہ فون خود اٹھاتے، میں عرض مدعا کرتا تو وہ کہتے ’’آجائو‘‘ میں دفتر سے سیدھا گلبرگ میں ان کی وسیع و عریض پرانی کوٹھی پر حاضر ہو جاتا۔ پورے علاقے میں بلند و بالا کمرشل پلازے بن جانے کے بعد اس قدیم تعمیر شدہ عمارت کی اپنی ہی شان ہے، انہوں نے تمام تر مالی مفادات سے صرف نظر کرتے ہوئے اسے اس کی اصل حالت میں قائم رکھا تھا۔ اب ان کے انتقال کے بعد دیکھیں کب تک اس کی یہ تاریخی حیثیت قائم رہتی ہے۔ بہر حال میں حاضر ہوتا تو خود استقبال کرتے۔ مجھے بٹھا کر اندر جاتے اور اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر بسکٹوں کے ہمراہ خود مجھے تھماتے، کبھی کسی ملازم کو زحمت دیتے میں نے نہیں دیکھا، جب تک میرا جی چاہتا یا ہمت اجازت دیتی میں ان سے گفتگو کرتا اور وہ مکمل اعتماد اور یکسوئی سے ہر طرح کے سوالوں کے جواب خندہ پیشانی سے دیتے چلے، اجازت طلب کرتا تو نہایت شفقت بھرے لہجے میں الوداع کرتے…!
ڈاکٹر مبشر حسن سیاست اور حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر رہے مگر ان کی زندگی سادگی کا نمونہ تھی۔ طویل عرصہ تک ایک پرانی فوکسی گاڑی ہی پر سفر کرتے رہے، سفید رنگت اور لمبے قد کے ساتھ صاف ستھرے لباس میں نستعلیق لہجے میں گفت گو کرتے بہت بھلے لگتے تھے، وہ جو بات درست سمجھتے تھے، لگی لپٹی رکھے بغیر سیدھے لفظوں میں زبان پر لے آتے تھے، اس ضمن میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی پروا کی اور نہ ہی نصرت اور بے نظیر بھٹو کی۔ جو حق سمجھا، برملا اس کا اظہار کر دیا۔ وہ کسی بھی صورت زہر ہلاہل کو قند کہنے پر آمادہ نہیں ہوئے! اقتدار کے ایوان میں بااختیار مناصب پر رہنے کے باوجود انہوں نے کبھی سیاست کو مادی مفادات کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا، خود کوئی فائدہ اٹھایا نہ اپنے اہل خانہ اور دوست احباب کو نوازا۔ ان کے نظریات اور خیالات سے یقینا اختلاف کیا جا سکتا تھا مگر ان کے کردار پر انگلی اٹھانا آسان نہیں۔ وہ بلاشبہ ایک اصول پسند اور دیانتدار سیاستدان تھے جن کا آج خاصا قحط واقع ہو چکا ہے…!