اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمرعطابندیال نے قراردیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ہماری کوئی دلچسپی نہیں ہے تاہم ہم یہ چاہتے ہیں کہ آئین اورقانون میں جو لکھا ہوا ہے اس کے مطابق ہی معاملات سرانجام دیے جائیں،تمام جماعتیں قانون کے مطابق برتائو کریں ،گزشتہ روز ہم نے ایسا واقعہ دیکھا جو آزادی رائے اور احتجاج کے حق کے خلاف تھا جب کہ عدالت نے آئی جی اسلام آباد پولیس سے سندھ ہائوس پر ہونے والے حملے سے متعلق رپورٹ(کل)پیرتک طلب کرلی۔عدالت نے ہدایت کی ہے کہ رپورٹ میں لکھا جائے کہ سندھ ہائوس کو کتنا نقصان پہنچایا گیا اور کون لوگ وہاں موجود تھے اور اب تک ذمے داروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے۔سپریم کورٹ بار کی درخواست پر عدالت عظمیٰ نے پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو فریق بناتے ہوئے نوٹس جاری کر دیے ہیں اورانہیں (کل )پیر کومعاونت کے لیے طلب کر لیا ہے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر پر مشتمل2رکنی بینچ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے جلسوں کے اعلان سے پیداشدہ صورتحال سے متعلق دائر آئینی درخواست پر گزشتہ روزسماعت کی۔چیف جسٹس کا سماعت کے آغاز پر کہنا تھا کہ میں یہ وضاحت کردوں کہ یہ ازخود نوٹس نہیں بلکہ ہم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر درخواست ہی پر سماعت کررہے ہیں۔ دوران سماعت سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد پولیس، اٹارنی جنرل بیرسٹرخالد جاوید خان اور سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر چودھری محمد احسن بھون ایڈووکیٹ وڈیو لنک کے ذریعے لاہورسے پیش ہوئے۔دوران سماعت اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت نے آرٹیکل-A 63 کی تشریح کے حوالے سے ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیاہے،ریفرنس(کل)پیرکو دائر کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بار ایسوسی ایشن چاہتی ہے کہ قانون پر عملدرآمد کیا جائے،آپ بھی عدالت سے رجوع کرنا چاہتے ہیں،ریفرنس دائر کریں اور اگر وہ سوالات قانونی ہوں گے تو ہم ان سوالات کے مکمل جوابات دیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بار امن عامہ اورآرٹیکل 95کی عملداری چاہتی ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ ہائوس کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ سندھ ہائوس میں گزشتہ روز کیا ہوا۔اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت کواس پر خود شرمندگی ہے، ہم افسوس کا اظہارکرتے ہیں کہ جو کچھ سندھ ہائوس پر ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا، سندھ ہائوس پر کچھ لوگوں نے حملہ کیا اور جن لوگوں نے حملہ کیاان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جارہی ہے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس طریقہ سے نہیں ہونا چاہیے ، ہم چاہتے ہیں کہ آئین اور قانون کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہیے اور جو جمہوری طریقہ ہے اور آئینی اور قانونی طریقہ ہے اس کو مکمل ہونا چاہیے ، سڑکوں کے اوپر تصادم ہرگز نہیں ہونا چاہیے ۔دوران سماعت عدالت نے سپریم کورٹ بار کے صدر کو بولنے سے روکتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ آپ کی درخواست سیاسی ہے نہ کہ قانونی، ایسے لگتا ہے کہ جیسے آپ سیاسی پارٹی ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو ہو رہا ہے اس سے مطلب نہیں،آئین کی عملداری کے لیے بیٹھے ہیں،کیا پبلک پراپرٹی پر دھاوا بولنا قابل ضمانت جرم ہے؟چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ارکان اور اداروں کو تحفظ آئین کے مطابق ملنا چاہیے۔ عدالت نے موجودہ سیاسی ماحول میں آئی جی اسلام آباد کو قانون کے مطابق اقدامات کا حکم دے دیا۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت(کل) پیرتک ملتوی کردی۔علاوہ ازیںوفاقی وزارت داخلہ نے تحریک انصاف کے کارکنوں کے سندھ ہائوس پر دھاوے کے معاملے کی اعلیٰ سطحی انکوائری کا حکم دے دیا ۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق انکوائری کمیٹی کی سربراہی ڈی آئی جی آپریشنز اویس احمد کریں گے، وزارت داخلہ کی کمیٹی کو3روز میں انکوائری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت داخلہ نے حکم دیا ہے کہ ان سب باتوں کی انکوائری کی جائے کہ وزرا کی کال کے بغیر کارکنان کیسے پہنچے؟ سندھ ہائوس کے باہر انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا احتجاج منتشر کیا تو کارکنان دوبارہ کیسے پہنچے؟ ہائی سیکورٹی زون میں2مرتبہ کارکنان کے پہنچنے پر پولیس کہاں تھی؟ اور پولیس نے کسی بھی جگہ کارکنان کو سندھ ہائوس پہنچنے پر روکا کیوں نہیں جب کہ پولیس نے جے یو آئی کارکنان کو روک لیا توپی ٹی آئی کارکنان کو کیوں نہ روکا گیا؟خیال رہے کہ جمعہ کووفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے سندھ ہائوس پر دھاوا بولا تھا، کارکنوں نے سندھ ہائوس کے دروازے پر لاتیں مار کر اسے توڑ ڈالا تھا اور احاطے میں داخل ہوگئے تھے۔بعد ازاں وفاقی وزیر داخلہ کی ہدایت پر پولیس نے تحریک انصاف کے 2 ارکان قومی اسمبلی سمیت 10سے زاید افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔گزشتہ روز پولیس نے 13پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی جس میں دونوں ایم این ایز کے نام شامل نہیں کیے تھے۔دوسری جانب جمعہ کوتحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی اور کارکنوں کی جانب سے سندھ ہائوس پر حملہ کرنے کے معاملے پر مقدمہ کے اندراج کے لیے پیپلز پارٹی کی جانب سے تھانہ سیکرٹریٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔درخواست میں مئوقف اختیار کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے ملزمان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ 2 پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی80کارکنوں کے ساتھ سندھ ہائوس آئے اور حملہ کیا اور گیٹ نمبر2توڑدیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ارکان قومی اسمبلی اپنے اہلخانہ کے ساتھ سندھ ہائوس میں رہائش پذیر ہیں ۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد،وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی،شہباز گل کی جانب سے اپوزیشن کو دھمکیاں دی گئیں اور کارکنوں کو مشتعل کیا۔وفاقی وزرا نے وزیر اعظم کی ہدایت پر ہمارے اوپر حملہ کیا ہے،دہشت گردی پھیلانے پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے کارروائی کی جائے اور ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے۔درخواست پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی قادر خان مندوخیل ایڈووکیٹ کی جانب سے جمع کرائی گئی ہے جب کہ گزشتہ روز سندھ ہائوس پر حملہ کرنے والے پی ٹی آئی کارکنوں کو رہا کردیا گیا۔ علاقہ مجسٹریٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کارکنوں کو شخصی ضمانت ملنے پر رہا کیا گیا۔ ملزمان کے خلاف کارسرکار میں مداخلت اور دیگر دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں ۔پولیس کی جانب سے 13گرفتار کارکنوں کو علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ علاقہ مجسٹریٹ نے شخصی ضمانت پر گرفتار پی ٹی آئی کارکنوں کو رہا کردیا۔