نیک اعمال کی لذت

558

اللہ کے رسولؐ نے روزے دار کے لیے خوش خبری سنائی: ’’روزے دار کے لیے دو خوشیاں حاصل ہیں، ایک خوشی اس وقت جب وہ روزہ مکمل کرکے افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی اس وقت ملے گی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔ (مسلم)
ہر نیک عمل جو اللہ کے لیے کیا جائے اس سے یہ دونوں خوشیاں وابستہ ہوتی ہیں۔ جب انسان ایک نیک عمل کو انجام دیتا ہے تو ایک خوشی تو اسی وقت اس عمل کو کرنے کی ہوتی ہے اور دوسری خوشی اس کا انتظار کرتی ہے۔
جسم میں روح کا آنا، بسیرا کرنا اور پھر پرواز کرجانا، دراصل روح کا امتحان ہے کہ وہ جسم میں رہتے ہوئے اس سے کتنے زیادہ نیک عمل کرواتی ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’جس نے موت اور زندگی کو تخلیق کیا، تاکہ تمھیں آزمائے کہ کون بہتر عمل کرتا ہے‘‘۔ (الملک: 2)
انسانی وجود سے نیک اعمال مطلوب ہیں۔ رحمتِ خداوندی کا یہ وعدہ ہے کہ ان اعمال کا ثواب آخرت میں ملے گا۔ پھر یہ اللہ کی مزید رحمت ہے کہ اس نے نیک اعمال کے اندر لذت بھی رکھی ہے۔ نیک اعمال کو انجام دیتے ہوئے جسم کو مشقت ہوتی ہے مگر روح کو لذت حاصل ہوتی ہے۔ جب روح اس لذت سے آشنا ہوجاتی ہے تو پھر اس کے اندر نیک اعمال کی رغبت بڑھتی جاتی ہے۔
ایسا تو ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص نیک اعمال نہیں کرے اور اس لیے ان کی لذت سے بھی آشنا نہیں ہو۔ لیکن جب کوئی نیک اعمال کرتے ہوئے اطاعت کی لذت سے آشنا ہوجاتا ہے، تو پھر اسے ان کے بنا قرار نہیں آتا۔
ابوسلیمان دارانیؒ کہتے تھے: ’’اس شخص پر حیرانی نہیں ہے جو اطاعت کی لذت نہیں پائے، حیرانی تو اس پر ہے کہ جو اس کی لذت کو پالے، اور پھر اسے چھوڑ دے، آخر اسے اس کے بغیر قرار کیسے آتا ہے‘‘۔ (حلیۃ الاولیاء)
بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ اگر عمل میں لذت نہیں مل رہی ہو، تو فکر مند ہونا چاہیے کہ عمل کو کہیں کوئی بڑا عیب تو لاحق نہیں ہوگیا ہے۔ اتنا بڑا عیب کہ وہ ثواب کا مستحق بھی قرار نہیں پائے۔ ابوسلیمان دارانیؒ کہتے تھے: ’’میں نہیں سمجھتا کہ جس عمل کی دنیا میں لذت نہیں ہوگی اس کا آخرت میں ثواب ہوگا‘‘۔ (حلیۃ الاولیاء)
نیک کاموں سے روح کو جو لذت حاصل ہوتی ہے، وہ زندگی کا نہایت قیمتی سرمایہ ہوتی ہے۔ ابوسلیمان دارانیؒ کہتے تھے: ’’دانا آدمی اگر اپنی باقی ماندہ عمر میں کسی اور بات پر نہیں روئے، صرف اس پر روئے کہ ماضی میں وہ کتنے نیک کاموں کو نہ کرکے ان کی لذت سے محروم رہا، تو اسے مرتے دم تک اس پر رونا چاہیے‘‘۔ (حلیۃ الاولیاء)
ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ آدمی نیک اعمال تو کرے، لیکن اسے ان اعمال کی لذت حاصل نہ ہو، ایسی صورت میں جسم نیک اعمال کی مشقت اٹھاتا ہے مگر روح لذت کی متلاشی رہتی ہے۔ جسم کی یہ مشقت بالآخر روح کے کام آتی ہے اور ایسا وقت بھی آتا ہے کہ روح کو لطف آنے لگتا ہے۔ ثابت البنانیؒ اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے بیس سال تک مشقت کے ساتھ نمازیں پڑھیں، پھر بیس سال تک نمازوں کا لطف اٹھایا‘‘۔ (حلیۃ الاولیاء)
جب انسان پر دنیا داری سوار ہوجاتی ہے تو اس کی حالت عجیب ہوجاتی ہے، وہ چھوٹے چھوٹے مادی نقصانات پر پریشان ہوجاتا ہے اور بڑے بڑے روحانی نقصانات گوارا کرلیتا ہے۔ یونس بن عبیدؒ ایسی نفسیات کو بے نقاب کرتے ہوئے کہتے: ’’مجھے کیا ہوگیا ہے، آخر یہ مجھے کیا ہوگیا ہے، مرغی گم ہوجاتی ہے تو غمگین ہوجاتا ہوں اور نماز چھوٹ جاتی ہے تو ذرا غم نہیں ہوتا‘‘۔ (حلیۃ الاولیاء)
اگر دنیا دار انسانوں کو جسم کی لذتیں روح کی لذتوں سے بے گانہ کردیں، تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ محبت خداوندی سے سرشار انسانوں کو روح کی لذت جسم کی ہر لذت سے بے نیاز کردے، قاسم بن عثمانؒ کہتے تھے: ’’اللہ کی محبت اولیا کو ایسا سیر کرتی ہے کہ وہ ہر بھوک سے بے گانہ ہوجاتے ہیں۔ وہ کھانے پینے کی لذتوں، شہوتوں اور دنیا کی لذتوں کو بھول جاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو ایسی لذت حاصل ہوجاتی ہے جس کے اوپر کوئی لذت نہیں ہوتی اور وہ انھیں ہر لذت سے کاٹ دیتی ہے‘‘۔ (حلیۃ الاولیاء)