’’شہید‘‘ اب نہیں چلے گا

509

متعدد بھارتی شہروں سے شایع ہونے والے اخبار ہندی ملاپ کی 8 مارچ 2022 کی اشاعت میں للِت شنکر نے لکھا ہے کہ لفظ ’’شہید‘‘ کا استعمال بھارتی فوجی جوانوں کے لیے درست نہیں۔ اُنہوں نے دلیل یہ دی ہے کہ یہی لفظ دہشت گرد بھی اپنے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ بھارتی فوج کے جو جوان کسی بھی کارروائی میں مارے جاتے ہیں اُنہیں شہید کہا جاتا ہے۔ بھارتی وزارتِ دفاع نے حال ہی میں ایک سرکلر جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج کے جو جوان کسی بھی کارروائی میں جان کا نذرانہ پیش کریں اُنہیں شہید نہیں بلکہ ’’بلِدانی‘‘ کہا جائے۔ وزارتِ دفاع نے واضح کیا ہے کہ اُس نے کبھی کسی سے نہیں کہا کہ مارے جانے والے فوجیوں کو شہید کہا جائے۔ 1990 کے عشرے میں بھارتی فوج کے مارے جانے والے جوانوں کو شہید کہنے اور لکھنے کا رواج شروع ہوا۔ بھارتی وزارتِ دفاع نے بتایا ہے کہ 2016 میں پارلیمنٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ فرائض کی انجام دہی کے دوران مارے جانے والے فوجیوں کو شہید نہ کہا جائے کیونکہ یہ اردو کا لفظ ہے اور اس کا مفہوم ہے مذہب کے لیے جان دینے والا جبکہ بھارتی فوج کے جوان مادرِ وطن کے لیے جان دیتے ہیں۔
پروفیسر ہری اوم اور ڈاکٹر اجیے چرنگو کا استدلال ہے کہ صلیبی جنگوں کے دوران مسلم اور مسیحی عساکر کے جو لوگ مارے جاتے تھے وہ شہید کہلاتے تھے۔ انگریزی میں اس کے لیے لفاظ martyr استعمال ہوتا ہے۔ ان دونوں اہل ِ علم کا کہنا ہے کہ میدان میں کام آ جانے والے بھارتی فوجیوں کو شہید کہنا بھارت میں اسلامی تہذیب کو پروان چڑھانا ہے۔
(للِت شنکر نے یہ وضاحت نہیں کی کہ جن فلمی اور غیر فلمی گیتوں میں بھارتی فوج کے مارے جانے والے جوانوں کو شہید کہا گیا ہے اُن کا کیا بنے گا۔ آں جہانی لتا منگیشکر نے کوی پردیپ کا لکھا ہوا وطن کا ایک نغمہ گاکر پوری قوم کو رُلا دیا تھا۔ اُس کے بول تھے ؎
اے میرے وطن کے لوگو!
ذرا آنکھ میں بھرلو پانی
جو شہید ہوئے ہیں، اُن کی
ذرا یاد کرو قربانی
بھارت کی جنگ ِ آزادی میں مارے جانے والے بھی شہید ہی کہلاتے تھے۔ اِسی نام سے بھارت میں دو بڑی فلمیں بھی بنائی گئیں جن میں دلیپ کمار اور منوج کمار نے کام کیا تھا۔ اگر لفظ شہید سے ایسی ہی چڑ ہے تو پھر اِن فلموں اور گیتوں کا کیا بنے گا؟)
بے وقعت روس کس کام کا؟
………………
ورلڈ پالٹکس ریویو ڈاٹ کام کے لیے ہاورڈ ڈبلیو فرینچ نے 9 مارچ 2022 کو ’’جنگ سے کمزور پڑ جانے والا روس چین کے لیے زیادہ اہم نہ ہوگا‘‘ کے زیرِ عنوان تجزیے میں لکھا ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے وقت چین نے خوب بغلیں بجائیں اور روسی قیادت کے ساتھ کھڑے ہوکر مغرب کو منہ دیا۔ تب چینی سوشل میڈیا نے روس کو خوب سراہا۔ روسی حملے پر مغرب کے محض تماشائی بنے رہنے کو بھی چینی مین اسٹریم اور سوشل میڈیا نے خوب لتاڑا۔ روس نے جس طور امریکا اور یورپ کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا اُسے بھی چین نے خوب سراہا۔ اس قضیے کو یورپ کے زوال سے بھی تعبیر کیا گیا۔ چین یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ ایک مدت سے مغرب کی لبرل ڈیموکریسی اور خالص سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جس نوعیت کا متبادل چاہتا تھا وہ متبادل روس کی شکل میں نمودار ہوچکا ہے۔
تائیوان کے معاملے میں چینی میڈیا بہت سوچ سمجھ کر بولتا ہے۔ روس نے یوکرین کے معاملے میں جو کچھ کیا ہے اُس کی پاداش میں اُسے پابندیاں بھی جھیلنا پڑیں گی۔ چین نے اب تک روس کا ساتھ دیا ہے مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک قائم رکھنا مشکل ہوگا کیونکہ وہ جمہوری دنیا سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ روس نے یوکرین کے معاملے میں جو کچھ کیا ہے چین وہی کچھ تائیوان کے معاملے میں کرتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ وہ پُھونک پُھونک کر قدم اٹھانے کا ماہر ہے۔ اب جبکہ یوکرین پر حملے کے خلاف ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ میں بھی احتجاج ہو رہا ہے، چین کے لیے روس کی حمایت جاری رکھنا دشوار ہو جائے گا۔ ویسے بھی چینی قیادت اب تک معیشت کو اہمیت دیتی آئی ہے۔ وہ باقی دنیا کی مخالفت مول لے کر کوئی ایسا قدم اٹھانا نہیں چاہے گی جس کے نتیجے میں اُس کے لیے معیشتی استحکام برقرار رکھنا دشوار ہو جائے۔
چین میں روس کے حوالے سے مجموعی تاثر تبدیل ہو رہا ہے۔ روسی صدر کو چین میں غیر معمولی مقبولیت حاصل نہیں۔ لبرل انٹر نیشنل ازم کے زوال کے حوالے سے چین زیادہ پُرامید نہیں۔ مغرب کا متعارف کرایا ہوا عالمی نظام مکمل ناکام نہیں ہوا ہے۔ نئے عالمی نظام کی ضرورت ضرور محسوس کی جارہی ہے تاہم اس کے لیے پرانے عالمی نظام کے مکمل غیر موثر ہو جانے کا انتظار کرنا ہوگا۔ یوکرین کے معاملے میں چین کا ہاتھ بھی تلاش کیا جارہا ہے۔ چین اس معاملے میں اتنا نمایاں رہا ہے کہ اُسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
چین کئی عشروں سے کسی بھی ملک کی خود مختاری، سلامتی اور سالمیت کے احترام کی بات کرتا آیا ہے۔ اب اگر وہ روس کی حمایت میں کھڑا ہوکر اپنے ہی اصولوں سے بغاوت کرے گا تو اُس کی ساکھ خراب ہوگی۔ دوسری طرف جنگ کے نتیجے میں کمزور پڑ جانے والا روس چینی قیادت کے لیے زیادہ کام کا نہ ہوگا۔
کچھ ماحول کے لیے بھی سوچیے
………………
جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کے لیے Jeannette Cwienk نے ’’ماحول کا بحران کس طور توانائی کی رسد کے نظام کو نقصان پہنچا رہا ہے؟‘‘ کے زیرِ عنوان لکھا ہے کہ ہر طرح کا شدید موسم دنیا بھر میں توانائی کی رسد کے نظام میں خلل ڈال رہا ہے۔ تیل، گیس اور ایٹمی توانائی کے ذرائع زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے توانائی کے اِن تینوں ذرائع کا نظام ہدف پزیر ہے۔ تیل اور گیس کی پائپ لائنز شدید موسمی حالات کے زیرِ اثر رہتی ہیں۔ انرجی واچ گروپ کے محقق ہانز جوزف فیل نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں توانائی کی ترسیل کے روایتی ذرائع کو آئے دن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
توانائی کے روایتی ذرایع شدید موسمی حالات کا زیادہ ثابت قدمی سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ 2018 کے موسمِ گرما میں فرانس نے اپنے کئی ایٹمی بجلی گھر بند کردیے تھے اور جرمنی میں گروھنڈے (Grohnde) کا ایٹمی بجلی گھر بھی بند کرنا پڑا تھا۔ سمندر کے کنارے قائم ایٹمی بجلی گھر شدید گرمی کا سامنا آسانی سے کرلیتے ہیں تاہم سمندر کی سطح کی رونما ہونے والی تبدیلی سے اُنہیں بھی خطرات تو لاحق رہتے ہیں۔
شدید خشک سالی سے دریاؤں کی سطح گر جاتی ہے اور اُن میں جہاز رانی مشکل ہو جاتی ہے۔ یوں تیل اور توانائی کے دیگر ذرائع کی ترسیل متاثر ہوتی ہے۔ سیلابی کیفیت میں بھی دریا اس قابل نہیں رہتے کہ ان کے ذریعے توانائی بھیجی جائے۔ 2021 میں لاطینی امریکا میں خشک سالی کے باعث پن بجلی زیادہ پیدا نہ کی جاسکی۔ ان ممالک کو امریکا سے مایع گیس درآمد کرنا پڑی۔ اس کے نتیجے میں یورپ کو موسمِ سرما میں امریکا سے کم گیس ملی۔