ملک میں موجودہ سیاسی صورتحال اپنے بگاڑ کی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ حکومت مخالف سیاسی پارٹیوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد چلا رکھی ہے۔ وزیراعظم اور ان کی پارٹی اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے مختلف امکانات پر غور کر رہی ہے بلکہ وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں ذکر کیا تھا کہ ہو سکتا ہے پی ٹی آئی کے اراکین اس دن قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت ہی نہ کریں۔ پارٹیوں میں جوڑ توڑ کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے ایک دوسرے کے اراکین کو توڑا ہے۔ ان کے اس دعویٰ میں کتنا سچ ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ویسے بھی ان سیاسی پارٹیوں کے اراکین کی اصلیت، صرف ذاتی مفاد پرستی ہے۔ ایک دن ایک پارٹی کے ساتھ اپنی موت تک ساتھ نبھانے کا عہد اور دعویٰ کرتے ہیں اگلے دن کسی دوسری پارٹی کی مقبولیت دیکھ کر فوری پینترا بدلتے ہیں اور جا کر اس پارٹی لیڈر کے قدموں میں سر رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لوگ اتنی جلدی سوٹ نہیں بدلتے جتنی جلدی یہ اراکین پارٹیاں بدل لیتے ہیں۔ عہد وفا جیسے لفظ کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت و اہمیت نہیں۔ خوشامد اور جھوٹ کے علاوہ ان کی زبانیں کچھ نہیں جانتیں۔ موجودہ حکومت ہی دیکھ لیں کہ اس کے اراکین جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے نکل کر آئے ہیں، ماضی میں جب انہوں نے دیکھا کہ لوگوں میں پی ٹی آئی مقبولیت پکڑ رہی ہے تو فوراً اپنے اپنے پارٹی لیڈر کو گدھے کی طرح دولتی رسید کی اور عمران خان کے جانثار سپاہی بن گئے۔ اب جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے بھی ناکامی کی سند حاصل کر لی ہے تو یہ مفاد پرست کیسے اس پارٹی میں ٹک سکتے ہیں۔ یہ چڑھتے سورج کو سلام کرنے والے اب اپنے لیے نئی راہوں کی تلاش میں نکل چکے ہیں۔
عمران خان نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کیا اور یہ دعویٰ اتنا کھوکھلا ثابت ہوا کہ ریاست مدینہ کی طرز کا ایک اصول بھی لاگو نہ کروا سکا۔ اس نے اپنی جدوجہد صرف مسلم لیگ کے احتساب تک ہی محدود رکھی، ملکی مفاد کا کبھی نہیں سوچا، لگتا ہے کہ یہ بندہ اقتدار پر صرف ذاتی دشمنی ہی نبھانے آیا ہے اور وہ پوری ایمانداری سے نبھائی۔ اس نے اپنی ہر تقریر میں مخالفین کی کمیاں، کوتاہیاں اور جرائم ہی بتائے یا پھر قوم کو جھوٹی تسلیاں دیں، سبز باغ دکھائے، سب ٹھیک ہے، کا مژدہ سنایا۔ بلکہ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس شخص کی زبان سے سوائے جھوٹ کے کبھی کچھ نہیں نکلا۔ اب تو ان کی اہلیہ کا ڈھیروں پیسہ لے کر اپنی مرضی کے تقرر کروانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ اگر پھر خدانخواستہ کوئی اگلا ذاتی عناد پالنے والا حکمران آجاتا ہے، تو یوں سمجھیں کہ اگلے پانچ سال ملک کی ترقی کے بجائے عمران خان اور اس کی اہلیہ کا احتساب کرتے گزر جائیں گے کیونکہ پاکستان کی سیاست میں یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ دنیا میں واحد مسلم ایٹمی طاقت، اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والا اسلامی جمہوریہ ملک میں ان سیاسی جماعتوں کے لیڈر ہزاروں کی تعداد میں لوگ اکٹھے کرکے، ان کا وقت برباد کر کے، صرف اپنے سیاسی دشمنوں کی برائیاں کرتے ہیں۔ ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرتے ہیں، الزام تراشی بلکہ گالم گلوچ سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔ ان کے آکسفورڈ میں پڑھنے کے باوجود، اس وقت بھینسیں چرانے والے ان سے زیادہ پڑھے لکھے محسوس ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں صرف ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جس کے اراکین اپنے وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ وہ ناپ تول کر بولتے ہیں۔ وہ ذاتی مفاد کے لیے پارٹیاں نہیں بدلتے۔ وہ حق کی خاطر باطل کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کی تربیت دینی اساس پر کی جاتی ہے۔ جب انسان کا برا وقت اور بدقسمتی شروع ہوتی ہے تو وہ اپنے لیے گڑھا خود ہی کھودنا شروع کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنا ووٹ استعمال کرنے سے پہلے صالح افراد کے بجائے جماعت، گروہ اور برادری ازم کو دیکھتے ہیں۔ ملکی مفاد کو مدنظر نہیں رکھتے اور جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس جماعت کو اقتدار تک نہیں لے کر آتے ہیں حالانکہ صاحب اقتدار تو ہماری قوم کا اپنا انتخاب ہوتا ہے۔
اگر میں بحیثیت مسلمان اسلامی قانون کی بات کروں تو ہمارے ملکی آئین میں بھی یہ دفعہ شامل ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم اور صدر مسلمان ہی ہوگا۔ یہی تو ہمارے مذہب کی خصوصیت ہے کہ یہ مذہب نسلی نہیں بلکہ عملی ہے۔ مسلمان کی پہچان نام کا مسلمان نہیں بلکہ عمل ہے۔ اگر ہمارا اسلامی فقہ ایک مسجد کے امام کے انتخاب کے لیے عمل میں تقویٰ کی شرط لگاتا ہے تو سوچیے جسے اسلامی ریاست کی زمام کار سنبھالنی ہے اس کے لیے تقویٰ کا کیا مرتبہ ہونا چاہیے؟ نہ کہ جھوٹا، وعدہ خلاف، مفاد پرست۔ اے پاکستانی قوم! جب ہم اپنا انتخاب درست کرلیں گے تو پھر ان شاء اللہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرت بھی ضرور نازل ہوگی اور پاکستان دنیا بھر میں وقار اور سرفرازی حاصل کرے گا۔