گلگت بلتستان عبوری صوبہ سیاسی جماعتوں کی مخالفت

360

گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی بازگشت سنائی دیتے ہی آزادکشمیر کی سیاسی جماعتوں نے ایسے کسی بھی فیصلے کی مخالفت پر کمر کس لی ہے۔ آزادکشمیر کی سیاسی جماعتوں میں مشترکہ سرگرمیاں یہ بتارہی ہیں کہ ان جماعتوں اور سیاسی خانوادوں نے ماحول میں کسی اہم فیصلے کی بُو محسوس کی ہے۔ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی کور کمیٹی کے راولپنڈی میں منعقدہ اجلاس میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کو مسئلہ کشمیر سے کھلی دستبرداری قراردیا گیا ہے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم کانفرنس کے قائد سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ گلگت بلتستان پر عالمی ادارے کی قراردادوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس علاقے کی آئینی حیثیت کا تعین کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں، ریاست جموں وکشمیر کے عوام کی قومی خواہشات، احساسات اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے قومی اور تحریک آزادی کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ جماعت اسلامی آزادکشمیر نے بھی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف آزادکشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے ایسے کسی بھی منصوبے سے لاعلمی کا اظہا ر کیا ہے۔ آزادکشمیر کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے صوبہ بنانے کی مخالفت موقف اس وقت کی جا رہی ہے جب یہ بات زبان زدِ خاص وعام ہے کہ حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس معاملے میں آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی سے بھی ایک قرارداد منظور کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ ایسے میں آزادکشمیر کی سیاسی جماعتوں نے مظاہروں کا ایک سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے جس کو گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی ملفوف مخالفت ہی کہا جا رہا ہے۔
گلگت بلتستان اور اس کی صوبائی حیثیت علاقے کے لوگوں کے لیے خواب اور سراب کی مانند ہے۔ مدتوں گلگت بلتستان کے عوام اس سراب کا تعاقب کرتے رہے ہیں مگر اب بھی وہ اس منزل کے قریب نہیں پہنچے۔ ہر انتخاب میں وفاقی سیاسی جماعتوں نے اس خطے کے عوام کو صوبہ بنانے کا خواب دکھایا مگر یہ خواب شرمندہ ٔ تعبیر نہ ہوسکا۔ پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت نے 2009 میں گلگت بلتستان امپاورمنٹ آرڈر منظور کرکے اس علاقے کے صوبائی خد وخال اُبھارے۔ مسلم لیگ ن نے سینیٹر سرتاج عزیز کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کرکے اس سمت میں مزید پیش رفت کی کوشش کی۔ ہر دو کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں بالترتیب پہلے پیپلزپارٹی اور بعدازاں مسلم لیگ ن کامیاب ہوئیں۔ گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں پی ٹی آئی نے بھی گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان بنفس نفیس یہ اعلان کرنے گلگت کے دورے کے دوران گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ یوں نہ کہتے ہوئے وہ سب کچھ کہہ گئے تھے۔ بلاول زرداری جو اسلام آباد میں وفاقی حکومت پر تقسیم کشمیر کی سازش کرنے اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی سازش کا دبے لفظوں میں اعلان کر رہے تھے گلگت پہنچے تو جب انہیں اندازہ ہوا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا آزادکشمیر کے ووٹروں کی مخالفت مول لینے کے مترادف تو ہو سکتا ہے مگر گلگت میں یہ مقبول لہر پر سوار ہونے کا آسان طریقہ ہے۔ اس لہر پر پی ٹی آئی سوار ہورہی تھی کہ بلاول نے دوقدم آگے بڑھ کر گلگت بلتستان کو مستقل صوبہ بنانے کا اعلان کیا۔
ایک طرف گلگت میں صوبے کا رومانس پورے زوروں پر ہے تو دوسری طرف آزادکشمیر کی سیاسی جماعتیں علاقے کے صوبائی اسٹیٹس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ آزادکشمیر کی سیاسی جماعتیں اس علاقے کے لیے آزادکشمیر طرز کے سیٹ اپ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ گلگت کے عوام کو بھی اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ گلگت بلتستان بھلے سے آزادکشمیر کا حصہ نہ ہو مگر یہ ریاست اور وسیع تر تنازعے کا حصہ ضرور ہے۔ 1947کو تقسیم ہونے والی ریاست کے دوحصے تھے۔ جس وقت گلگت بلتستان آزاد ہوا پورے کشمیر کی طرح اس وقت یہ ڈوگرہ حکمرانی کا حصہ تھا اور مہاراجا ہری سنگھ اس ریاست کے سربراہ تھے اور ریاست کا پورا نام ’’ریاست جموں وکشمیر تبت ہا‘‘ تھا اور تبت ہا کا مطلب گلگت بلتستان اور لداخ کے شمالی علاقہ جات تھا۔ تقسیم کے وقت یہاں مہاراجا کا مقرر کردہ گورنر بریگیڈئر گھنسار اسنگھ تھا۔ آزادکشمیر اور گلگت میں شروع ہونے والی الل ٹپ اور الگ الگ مزاحمت نے دونوں مقامات پر ڈوگرہ حکمرانی کا خاتمہ کیا یہاں آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کے نام سے ایک متوازی اور انقلابی حکومت قائم ہوئی۔ جب حریت پسندوں نے کچھ رقبہ آزاد کرایا تو اس علاقے پر اصل متوازی اور انقلابی حکومت کا قیام سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت ہی میں عمل میں لایا گیا۔ اس ابتدائی دور میں فاصلوں اور دوریوں کے باعث آزادکشمیر کی نوزائیدہ حکومت گلگت بلتستان پر اپنا کنٹرول قائم نہیں کر سکتی تھی اس لیے کچھ ہی عرصہ بعد گلگت بلتستان کا کنٹرول عبوری طور پر ایک معاہدے کے تحت حکومت پاکستان کو سونپا گیا۔ اس کے بعد سے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر ایک دریا کے دو کناروں کی طرح ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام اپنے لیے جس بات کو تریاق سمجھتے ہیں آزادکشمیر کے عوام کے نذدیک یہ زہر ہے۔ بیانیوں کی اس خلیج کی وجہ دونوں علاقوں کے درمیان طویل مدت سے چلا آنے والا رابطوں کا فقدان ہے۔ رابطوں کے فقدان سے حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے۔ گلگت بلتستان ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تھا اور آزادکشمیر اور گلگت بلتستان ایک ہی قضیے کا حصہ ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ گلگت بلتستان کو اس اصل تناظر سے کاٹنے والے مسئلہ کشمیر کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتے ہیں اور اسے سے کشمیر کی متنازع حیثیت پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ ایسے میں وفاقی حکومت کو مسلم کانفرنس سمیت آزادکشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی بات کو توجہ سے سننا ہوگا۔