بھارتی ہائیکورٹ نے حجاب پر پابندی لگادی، فیصلہ عدالت عظمیٰ میں چیلنج

139

نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) بھارتی ریاست کرناٹک کی ہائیکورٹ نے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پرپابندی برقراررکھنے کا حکم دیا ہے۔کرناٹک ہائی کورٹ نے 25فروری کو محفوظ کردہ فیصلہ منگل کوسنایا۔ چیف جسٹس ریتو راج اوستھی کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے ہندوانتہاپسندوں کی مرضی کا فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ حجاب اسلام کا لازمی جز نہیں ہے، تعلیمی اداروں کو یونیفارم تجویز کرنے کا حق ہے، بنیادی حقوق محفوظ رکھنے کے لیے یونیفارم قابل قبول وجہ ہے۔ فیصلے میں کہاگیا کہ عبوری طور پراسکارف اور بھگوا چادر پر پابندی لگائی جارہی ہے، یونیفارم کی پابندی ضروری ہے، اس پرطلبہ اعتراض نہیں کر سکتے اور حجاب یونیفارم کا حصہ نہیں تو طالبات کو اس کے بغیر اسکول آنا چاہیے۔بھارتی ججوں نے مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حجاب پرپابندی کے خلاف تمام پانچوں اپیلیں بھی خارج کردیں۔ متعصب ججز نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ اسکول انتظامیہ کے پاس مذہب اور دیگر بنیادوں پر تقسیم کو روکنے کے لیے حجاب پر پابندی کا اختیار ہے جب کہ 5فروری کو ریاستی حکومت نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی سے متعلق جو حکم صادر کیا تھا اسے غلط ٹھہرانے کا کوئی جواز نہیں۔اس معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ میں 11 سماعتیں ہوئیں جن میں طالبات کی جانب سے متعدد سینئر وکلا نے بحث کی اور کہا کہ چوں کہ یہ معاملہ مذہبی آزادی کے تحت آتا ہے لہٰذا طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت ملنی چاہیے۔عدالت کا فیصلہ آنے سے قبل حکومت نے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ریاستی دارالحکومت بنگلور میں ایک ہفتے کے لیے بڑے اجتماعات پر پابندی لگا دی تھی جبکہ اڈوپی میں بھیمنگل کو بھی اسکولزاور کالجز بند رہے۔عدالتی فیصلے کے بعد بنگلورو، اڈوپی سمیت کئی اضلاع میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے۔کرناٹک کے وزیر اعلیٰ باسو راج بومئی نے مسلم طالبات سے اپیل کی ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کا احترام کریں اور کلاسوں میں جا کر اپنے پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھیں۔کرناٹک کے وزیر داخلہ اراگا جنانیندرا نے کہا ہے کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لیے پولیس نے احتیاطی اقدامات کیے ہیں۔علاوہ ازیں کرناٹک ہائی کورٹ کے متنازع فیصلے کو مسلم طالبہ نبا ناز نے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا ہے۔ نبا ناز ان 5 طالبات میں شامل نہیں جنہوں نے کرناٹک ہائی کورٹ میں حجاب پر پابندی کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے اثرات ملک کی باقی ریاستوں پر مرتب ہوسکتے ہیں جہاں بڑی تعداد میں مسلمان موجود ہیں۔بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 14 کروڑ ہے جو اس کی مجموعی آبادی کا 14 فیصد حصہ ہیں۔بھارت میں تاریخی طور پر کبھی عوامی سطح پر حجاب کو ممنوع قرار دیا گیا اور نہ ہی محدود کیا گیا، یہاں خواتین کا اسکارف پہننا ملک بھر میں عام ہے، بھارت کے قومی چارٹر میں مذہبی آزادی کو سیکولر ریاست کے ساتھ سنگ بنیاد کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔انسانی حقوق کے رضا کاروں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ پابندی سے اسلامو فوبیا بڑھ سکتا ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست پارٹی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ ہوا ہے، یہ جماعت ریاست کرناٹک میں بھی برسر اقتدار ہے۔کرناٹک کے بارے میں اکثر ماہرین کا ماننا ہے کہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا گڑھ سمجھا جانے والا یہ علاقہ ہندو قوم پرست پالیسیوں اور ہندوتوا نظریے کی لیبارٹری ہے۔مسلم پرسنل لابورڈ، جمعیت علمائے ہند، سیاسی رہنمااسد الدین اویسی، محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ ودیگر نے حجاب پر پابندی سے متعلق عدالتی فیصلے پر شدیدردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ حجاب پر پابندی کو برقرار رکھنے کا کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ انتہائی مایوس کن ہے۔ ان کے بقول ایک طرف ہم خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ہم ان سے چننے (انتخاب کرنے) کا حق چھین رہے ہیں۔ یہ محض مذہب کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ چننے کی آزادی سے متعلق ہے۔جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔انہوں نیکہا کہحجاب کے بارے میں آپ کی رائے کچھ بھی ہو، یہ لباس کا معاملہ نہیں ہے، یہ عورت کے اپنے لباس کا انتخاب کرنے یا نہ کرنے کے حق کا سوال ہے، یہ بہت بڑی ستم ظریفی ہے کہ اس بنیادی حق کا تحفظ نہیں کیا گیا۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے قومی صدر اور لوک سبھا رکن اسد الدین اویسی نے فیصلے کو بد نیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسلمان کا حجاب‘ ایک طرح کی عبادت ہے، یہ مضحکہ خیز ہے کہ جج لازمیت کا تعین کریں۔ اویسی نے کہاکہ ایک مذہب کے لوگوں کو دوسرے مذہب کے لوگوں کے لیے لازمیت کا تعین کرنے کا حق نہیں ہے، ریاست کو ان مذہبی حقوق میں دخل دینے کی اجازت صرف تب ہونی چاہیے، جب یہ کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچاتے ہوں۔ حجاب کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا‘۔ان کا کہنا تھاکہ حجاب پر پابندی لگانا مسلم خواتین اور ان کے خاندانوں کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ یہ انہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ دلیل دی جا رہی ہے کہیونیفارم سے یکسانیت یقینی ہوگی۔ کیسے؟ کیا بچوں کو یہ پتا نہیں چلے گا کہ کون امیر خاندان سے ہے اور کون غریب خاندان سے؟ کیا ذات پر مبنی نام، بچوں کے طبقے کی طرف اشارہ نہیں کریں گے؟ جب آئرلینڈ میں حجاب اور سکھ پگڑی کو اجازت دینے کے لیے پولیس کی وردی میں تبدیلی کی گئی تھی تو مودی حکومت نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔ ملک اور بیرون ملک کے لیے دہرے معیار کیوں؟ اسکول یونیفارم کے رنگ کے مطابق حجاب اور پگڑی کو پہننے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔شرعی احکامات کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کے غیر متنازع فورم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیا اور کہاہے کہ وہ جلد ہی اس سلسلے میں مناسب قدم اٹھائے گا۔بورڈ کے جنرل سیکرٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے وائس آف امریکا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حجاب سے متعلق عدالت کا فیصلہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اور شرعی حکم کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ حجاب اسلام کا لازمی حکم نہیں۔ان کے بقول بہت سے مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے شریعت کے بعض احکامات میں تساہل سے کام لیتے ہیں جیسے نماز نہیں پڑھتے اور روزہ نہیں رکھتے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نماز اور روزہ لازم نہیں ہیں۔ مولانا خالد سیف نے کہا کہ اپنی پسند کا لباس پہننا اور اپنی مرضی کے مطابق جسم کے بعض حصوں کو چھپانا اور بعض کو کھلا رکھناہر شہری کا دستوری حق ہے۔ اس میں حکومت کی طرف سے کسی طرح کی پابندی فرد کی آزادی کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔کرناٹک سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ڈی کے سریش نے نئی دہلی میں ایک بیان میں کہا کہ آئین نے اسلام پر عمل کرنے کے حق کو تسلیم کیا ہے، میں نہیں جانتا کہ عدالت نے ایسا فیصلہ کیسے سنایا، ہم فیصلے کی تفصیلات کا انتظار کریں گے۔انڈین امریکن کونسل نے بھی ایک ٹویٹ میں حجاب پر پابندی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ بھارتی دستور مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے اور حجاب سے متعلق عدالتی فیصلہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ نے اسمبلی میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے اسمبلی میں سوال اٹھایا کہ حکومت یہ کیسے طے کر سکتی ہے کہ کون کیا پہنے گا؟ انہوں نے سوال کیا کہ حجاب پر تنازع کیوں ہے، ہم ماحول میں اتنا ہیجان کیوں پیدا کر رہے ہیں؟ مسلمان طالبات کے حجاب پہننے کے معاملے کی گونج پورے ملک میں سْنی گئی اور حجاب پر پابندی کے فیصلے کے خلاف ملک کی کئی ریاستوں میں مظاہرے بھی ہوئے۔