وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ سی آئی اے کے سابق ملازم معید یوسف کو مشیر قومی سلامتی بنانے کا نتیجہ سامنے آگیا۔ بھارت کو کیسے معلوم ہوا کہ پاکستان کی اسٹرٹیجک ائر بیس کہاں ہے اور کس ائر بیس پر پاکستان کے ایٹمی اثاثے موجود ہیں۔ معید یوسف کی آمد سے پہلے بھارت میں کسی کو یہ خبر نہیں تھی کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے اور اسٹرٹیجک ہتھیار کن کن مقامات پر ہیں۔ اس واقعے پر تو معید یوسف کو نہ صرف برطرف کرنا چاہیے بلکہ گرفتار کرکے مقدمہ چلانا چاہیے۔ کیونکہ ساری دنیا کو معلوم ہوگیا ہے پاکستان کا اسٹرٹیجک ائر پورٹ کہاں ہے۔ بی بی سی نے اپنی خبر میں بتایا ہے کہ ’’یاد رہے کہ بدھ 9 مارچ 2022 کی صبح پاکستان کے ضلع خانیوال کے قصبے میاں چنوں میں ایک غیرمتوقع واقعہ پیش آیا جس میں ایک انتہائی تیز رفتار شے اڑتی ہوئی مقامی رہائشی علاقے پر آ گری۔ ابتدائی اطلاعات سے پتا چلا تھا کہ ایک پرائیویٹ جہاز علاقے میں آ گرا ہے۔ بھارت کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ 9 مارچ کو پاکستان کی حدود میں گرنے والا میزائل ’’حادثاتی طور پر‘‘ بھارت سے فائر ہوا تھا جس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔
بی بی سی نے کہا ہے کہ یہ براہموس میزائیل تھا۔ براہموس میزائل بھارتی ’دفاعی تحقیق و ترقی کے ادارے‘ اور روس کی ’این پی او۔ ماشینو سٹرائے اینیا‘ کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے۔ براہموس‘ دو الفاظ سے مل کر بنا ہے۔ یہ دو دریائوں کے نام ہیں۔ بھارتی دریا ’براہما پترا‘ اور مغربی روس میں بہنے والا دریا ’موس کووف‘۔ یہ میزائیل 1998 میں روس اور بھارت کی مشترکہ کوششوں سے تیار ہوا تھا۔ براہموس میزائل کی زیادہ سے زیادہ رفتار 2.8 ’میچ‘ (تقریباً 3 ہزار 450 کلومیٹر فی گھنٹہ یا2 ہزار 148 میل فی گھنٹہ) ہے۔ اسے میزائل شکن نظام سے روکنا مشکل ہے۔ اس میں یہ بھرپور صلاحیت بھی موجود ہے کہ مختلف قسم کے ’ریڈار‘ (جہازوں اور اڑتی اشیا کا سراغ لگانے کا نظام) سے بھی بچ نکلتا ہے۔ براہموس فضا میں 15 کلومیٹر کی بلندی اور سطح زمین سے کم ازکم 10 میٹر اوپر پرواز (کروز کرنے) کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میزائل میں 200 سے 300 کلوگرام (غیرجوہری) روایتی بارودی مواد لیجانے کی صلاحیت موجود ہے۔ براہموس ’ٹو۔ اسٹیج‘ (دو مرحلوں) پر مشتمل میزائل ہے۔ اس میں ٹھوس ایندھن سے رفتار بڑھانے والا انجن نصب ہے جو پہلے مرحلے میں انتہائی تیز رفتار پیدا کرکے میزائل کو (اس کے دھماکہ خیز حصے سے) الگ ہونے سے قبل تیز رفتار پر لے جا کر ’سُپرسانک‘ (یعنی آواز سے زائد تیز رفتار) بناتا ہے جس کے بعد مائع ’ریم جیٹ‘ (ہوا کی شمولیت سے چلنے والا جہاز کا نظام) حرکت میں آجاتا ہے اور میزائل کو ’میچ تھری‘ کی رفتار کے مرحلے کے قریب لے جاتا ہے۔اسے ’چلائے اور بھول جائے‘ کے اصول پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ہدف تک پہنچنے کے راستے کی مستقل نگرانی نہیں کی جاتی‘‘۔
پاکستان کی حکومت اور بھارتی حکومت نے بھی براہموس کا نام نہیں لیا۔ بھارت کا نام نہ لینا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن پاکستان کی جانب سے بھارت کو یہ رعایت دینا سمجھ سے باہر ہے۔ معید یوسف پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں ہیں انہوں نے تو پریس کانفرنس کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا صرف ٹوئٹر پر پاکستان میں 9 مارچ کو میزائل گرنے کی بھارتی وضاحت کو مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک غیرذمے دار ملک کیسے ایٹمی صلاحیت رکھ سکتا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں معید یوسف نے بھارت کے دفاعی نظام کی کمزوریوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ9 مارچ کو ایک انہونا اور خطرناک واقعہ ہوا۔ بھارت سے ایک سپر سانک میزائل 250 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پاکستان میں گرا، یہ
کیسا ملک ہے کہ جس کا میزائل چل گیا اور وہ تین دن بعد وضاحت کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو پاکستان کو اعتماد میں لینے کی بھی توفیق نہیں ہوئی، ہم دنیا کو بار بار بھارت کے ناقص دفاعی نظام کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں، ایسا غیرذمے دار ملک حساس ایٹمی صلاحیت کیسے رکھ سکتا ہے۔ مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ بھارت میں ماضی قریب میں یورینیم کی چوری اور شہریوں کو یورینیم اسمگل کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یاد رکھیے کہ یہ وہ ریاست ہے جس کو فاشسٹ نظریات کے تحت چلایا جارہا ہے، جس کی 2019 میں پاکستان پر جارحیت کی مذموم کوشش ثابت ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے ایسے غیر ذمے دارانہ اقدامات خطے سمیت دنیا بھر کے لیے خطرہ بن چکے ہیں، بھارتی غیر ذمے داری کی انتہا ہے کہ انہوں نے ایک ایٹمی ملک پر میزائل برسا دیا۔ معید یوسف کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت سنجیدہ واقعہ ہے، دنیا اس معاملے کا فوری نوٹس لے۔ بھارتی میزائل کا غلطی سے فائر ہو جانے کی بھارتی وضاحت مشکوک ہے۔ نہ صرف بھارتی وضاحت مشکوک ہے بلکہ معید یوسف کا بیان بھی مشکوک ہے اس لیے کہ ساری دنیا کو علم ہے کہ یہ بھارت کے جدید اور خطرناک ترین براہموس میزائیل کا کولڈ ٹسٹ تھا کہ یہ نشانے پر لگتا ہے یا نہیں جوکہ کامیاب ہوا۔ نشانہ بھی پاکستان کے اسٹرٹیجک ائر پورٹ کو بنایا گیا۔ معید یوسف نے ایک رسمی بیان دے کر بات ٹال دی اور آئی ایس پی آر کو بھی پابند کردیا کہ وہ بھی براہموس کا نام نہ لے۔ لیکن آئی ایس پی آر نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جب یہ خبر آئی کہ میاں چنوں میں ایک چھوٹا ہوائی جہاز گرا ہے اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ایک میزائل ہے۔ جسے جنوبی بھارت کے کسی مقام سے فائر کیا گیا تھا۔ ہمیں یہ حیرت ہے کہ کون پاکستان کی حکومت کو بھارت کے خلاف کسی منہ توڑ جواب سے روک رہا ہے۔ عمران خان کی ساری توجہ اپنے ملک کے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے پر ہے۔ بھارت نے اپنے میزائیل براہموس کے تجربے کے لیے اسی موقعے کا کیوں انتخاب کیا کسی نے بھارت کو اشارہ کیا ہوگا؟ کہ وہ اپنے ایٹمی میزائل کا پاکستان میں نشانہ بنانے کا تجربہ کرے۔ پاکستان میں حزب اختلاف نے بھی اس مسئلے کو ایشو نہیں بنایا ہے کسی کو شاید اس معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں ہے کہ عمران خان نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کی کنجی کس کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔ ذرا تصور کریں کہ پاکستان پر بھارت نے بغیر کسی وارننگ کے ایٹمی ہتھیار وارد کردیے ہیں۔ بھارت کسی بھی وقت بلاجواز پاکستان پر ایٹمی حملہ کرسکتا ہے۔ کیا بھارت نے اپنے تئیں پلوامہ کا جواب دینے کی کوشش کی تھی؟ یہ ایک خطرناک عمل تھا۔ لوگ بھول گئے ہیں کہ ایک جمعے کو پشاور میں خودکش حملے میں 62 پاکستانی جاں بحق ہوئے ہیں۔ اب ایک نیوکلیر ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والا بین براعظمی میزائل پاکستان میں داخل ہوگیا اور پاکستان کا اینٹی میزائل سسٹم کا م نہیں کرسکا؟ کیوں؟ کسی نے تو مخبری کی ہوگی؟ ان حساس معلومات کی۔ کون ہے جس کو ان اسٹرٹیجک معاملات کا تازہ تازہ علم ہوا ہے۔ یہ معاملہ اتنا خطرناک ہے کہ یہ سب کچھ 3 منٹ میں ہوگیا اور پاکستان اس کا فوری جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہ کون سی حکومت تھی جس نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے حوالے کیا۔ عمران خان کی حکومت۔ پاکستان کے ہاتھ پائوں بندھ گئے۔ یہ کون سی حکومت تھی جس نے پاکستان میں آئی ایم ایف کو داخل کیا عمران خان کی حکومت۔ پاکستان کو معاشی طور پر امریکا کا غلام بنا کر اب دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہے اور پاکستان نے امریکا کو ایب سلیوٹلی ناٹ کہہ دیا ہے۔ امریکی سی آئی اے کے ملازم کے ہاتھ میں پاکستان کی نیوکلیر اور اسٹرٹیجک معاملات کی کنجی دے کر کون سے آزادی مل گئی ہے۔ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ امریکی مداخلت کی وجہ سے ہورہا ہے۔
بھارتی تجربے نے پاکستان کے عملی جواب دینے کی صلاحیت کو تو چیلنج کیا ہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی، نفسیاتی جواب دینے کی صلاحیت کو بھی مفلوج کیا ہے۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟ چند دن پہلے بھارتی آب دوز پاکستانی سمندری حدود میں آگئی تھی پاکستان نے اسے واپس جانے دیا بالکل اسی طرح جیسے عمرانی حکومت نے ابھی نندن کو ڈر کے مارے بھارت کے حوالے کردیا۔ اب میزائل گھس آیا اور پاکستان اسے روک نہیں سکا۔ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ کوئی اندر سے غداری کررہا ہے۔ بھارت پاکستان کی صلاحیتوں کا امتحان لے رہا ہے اور ہماری طرف سے معید یوسف جیسے لوگ ڈھیلے ڈھالے جواب دے رہے ہیں اور قوم کے سامنے پورے منظر نامے کو نہیں آنے دے رہے۔ ہمیں یہ خوف ہے کہ پاکستان پر بھارت اسی طرح حملہ کرے گا جس طرح روس نے یوکرین پر کیا ہے۔ اب پاکستان کا جواب قرض ہوگیا ہے کہاں دینا ہے اور کیسے دینا ہے یہ طے کرنے سے تمام اسٹرٹیجک حکمت عملی کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ورنہ ہمارے ایٹمی ہتھیار اور منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ یہ تسلیم کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہوگی کہ بھارت نے دانستہ ایسا نہیں کیا۔ بھارت کا فرضی ایٹمی حملہ کامیاب رہا ہے۔ دوسری مرتبہ خدانخوستہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے بھارت اصل ایٹمی ہتھیار سے مسلح میزائل بھیج سکتا ہے۔ ایسی صورت حال ہے کہ پاکستان کا کوئی عمل جنگ چھڑنے کا بہانہ بن سکتا ہے۔ یہ سب کچھ ایسی صورت حال میں ہوا ہے جب پاکستان میں سیاسی کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ بھارت میں یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان پر یہ حملہ اترپردیش کے متعصب وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کی کامیابی کے جشن کے طور پر کیا گیا۔ جو بھارت کا مستقبل کا وزیر اعظم ہوسکتا ہے۔