مری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی

444

آخری حصہ
دین کے اصولوں پر استقامت اختیار کرنے اور کسی بھی طرح کی کمزوری یا کوتاہی نہ دکھانے کے حوالے سے امام احمد بن حنبلؒ کی عظیم قربانی کی مثال ہماری تاریخ کا خوبصورت باب ہے جب انہوں نے اپنے وقت کے سفاک حکمران حجاج بن یوسف کے غیراسلامی اور غیرشرعی حکم کو کمال جرأت ایمانی سے مستردکردیا۔ جس کی پاداش میں اس منافق، ظالم اور سفاک حکمران نے اس جلیل القدر اور ممتاز داعی دین اور عظیم معلم دین کو کوڑے لگوائے۔ مگر امام احمد حنبلؒ نے اس ناروا ظلم کو خندہ پیشانی سے انگیز کیا اور کسی طرح کی مداہنت سے کام نہیں لیا۔ ہماری آج کی تاریخ بھی اس طرح کی نادر اور اسلامی اصولوں پر ڈٹ جانے اور پھر ا پنی جان ومال کی عظیم قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ مصر کی احیائے اسلام کی سب سے بڑی اور منظم تحریک ’’اخوان المسلمین‘‘ جس کے عظیم اور ہردلعزیز راہنما حسن البنا کو انگریز اور صہیونی طاغوت کے پرستار نام نہاد مسلمانوں نے شہید کردیا اور آج تک اس تنظیم کے مرشد عام اور ہزاروں ثابت قدم راہنماؤں اور کارکنوں کو بے دردی سے شہید کیا جارہا ہے۔ اب بھی لاکھوں کارکن جیلوں میں اذیت ناک سلوک سے گزر رہے ہیں۔ اسی تنظیم کے عظیم معلم دین اور اور معلم انسانیت اور مفسر قرآن اور لاتعداد کتابوں کے مصنف سیدقطب کو تختہ دار پر لٹکا دیا کہ انہوں نے کفر کے ایک کل پرزے جمال عبدالناصر کے احکام کو جوتے کی نوک پر رکھا۔ شہادت قبول کی مگر مداہنت سے کسی بھی صورت میں کام نہیں لیا۔ آج بھی اخوان پر ظلم وجبر جاری ہے۔
مصر کے منتخب صدر مرسی کو امریکی طاغوت کی آلہ کار فوج کے سربراہ جنرل سیسی نے اقتدار پر ناجائز قبضہ کرکے انہیں صدارت سے معزول کرکے جیل میں ڈال دیا جہاں سے انہیں اذیت ناک سلوک سے گزار کر اور لوہے کے پنجرے میں ڈال کر اپنی دجالی عدالت میں لایا گیا، آخر کار یہ سراپا عظمت و عزیمت انسان دنیا کی آنکھوں کے سامنے اسی آہنی شکنجے میں گر کر دم توڑ گیا۔ بزبان اقبال
سر خاک شہیدے برگہائے لالہ می پاشم
کہ خونش با نہال ملت ما سازگار آمد
ان شاء اللہ اسی طرح مغرب کی ایک لے پالک اور بھارت کی پروردہ بنگلا دیش کی صدر حسینہ واجد نے جماعت اسلامی بنگلا دیش کے عظیم راہنماؤں کو پھانسیاں دے کر اپنے دل کی آگ ٹھنڈی کی۔ رسول رحمت وناطق وحیؐ کی بلاچوں چراں اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور جس نے اپنی زندگی اسی اصول کے مطابق گزارکر استقامت کا مظاہرہ کیا اور ہر طرح کی دوسری اطاعتوں اور نظریات سے منہ موڑ کر برملا کہا اللہ تعالیٰ ہی میرا رب ہے، مشکل کشا ہے، میرا حاکم مطلق ہے، میرا خالق ہے اور برملا کہتا ہوں کہ میں اپنے معبود حقیقی کے مطابق پہلا اور حقیقی اطاعت گزار ہوں۔ افسوس ہے اس حقیقت پر کہ لاالہ الاللہ کے عزم پر حاصل کیا گیا مملکت پاکستان کے حکمرانوں کی تاریخ بھی اس طرح کے منافق، دین کے دشمن اور غیرملکی حکمرانوں کے ایجنٹوں سے بھری پڑی ہے۔ جب قائداعظم ؒ کی وفات کے بعد یہ ملک اس طرح کے حکمرانوں کے ہتھے چڑھ گیا جنہوں نے ملک پاکستان کی دینی، اخلاقی، سماجی، معاشی اور اخلاقی بنیادوں پر تیشہ چلانے اور کرپشن کی عظیم داستان رقم کرکے اپنے آپ کو بدنام اورکرپٹ ترین حکمران کہلوانے سے دریغ نہیں اور اسی پر بس نہیں بلکہ دین کے حقیقی اور مخلص علمائے کرام اور دانشوروں کو بدنام کرنے اور انہیں پس دیوار زنداں کرنے میں اپنا مذموم کردار ادا کیا۔ مثلاً مفسر قرآن دین کے داعی، اعلیٰ پائے کے مصنف اور عالم اسلام کے معروف راہنما مولانا سید ابوالاعلی مودودی کو قادیانیوں کے ایجنٹ فوجی حکمران، پنجاب میں مارشل لا کورٹ کے فوجی جج نے قادیانیت کی سازشوں کو ’’مسئلہ قادیانیت‘‘ پمفلٹ لکھ کر طشت از بام کرنے پر سزائے موت سنائی اور یہ بھی کہا کہ اگر مولانا مودودی رحم کی اپیل کریں تو سزا معاف ہوسکتی ہے لیکن مولانا مودودی نے اپنے بہی خواہوں کی خواہش کے باوجود معافی کی اپیل کرنے سے قطعی انکار کیا اور ساتھ ہی یہ تاریخی جملہ بھی کہا کہ اگر میری قسمت میں پھانسی کے ذریعہ موت لکھی ہوئی ہے تو میں ہزار بار منت سماجت کے باوجود موت سے نہیں بچ سکتا لیکن اگر میری قسمت میں اس وقت موت لکھی ہوئی نہیں تو یہ حکمران اُلٹے بھی لٹک جائیں تو میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ عالم اسلام کے شدید دباؤ میں آکر حکومت نے انہیں رہا کرنے کا اعلان کیا۔ یوں مولانا مودودی نے اسلام کی درخشندہ روایات اور قرآن وحدیث کے احکام اور سلف الصالحین کی سیرتوں کے مطابق مبنی برحق موقف پر جرأت واستقامت کا عظیم الشان مظاہرہ کرتے ہوئے واشگاف اعلان کیا۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اس لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی