میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی

2337

بزرگ صحافی ملک نصراللہ خان عزیز مرحوم کا یہ زبان زد عام مصرع صحابہ کرام ؓ کی ولولہ انگیز زندگی سے کشید کیا ہوا جوہر ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ عشق بلاخیز کے ان باعظمت اہل قافلہ نے قرآن حکیم کی اس آیت کے تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی کی آخری سانس تک گزاری کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگرہم زمین میں اقتدار بخشیں تو نمازقائم کریں گے، زکوۃٰ ادا کریں گے، نیکی کاحکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے (الحج:41)۔ نہ صرف اُمت مسلمہ بلکہ دین کے سخت ترین دشمن بھی صحابہ کرام ؓکی دین حق کی سربلندی کے لیے جان، مال، اولاد، اور وطن کی قربانی کی تحسین سے انکار نہیں کرسکتے۔ اسی لیے تو باری تعالیٰ ان کی تعریف میں فرماتے ہیں ’’یہی تو وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت بخشی اور یہی لوگ دانش سے بہرہ مند ہیں‘‘۔ (الزمر: 39)۔ صحابہ کرامؓ کی فنافی اللہ اور فنافی رسول ؐ زندگی ہمارے لیے، دین کے لیے دنیا کی آلائشوں سے بے رغبتی فرائض کی بے لوث بجاآوری اور ایثار وقربانی، باہمی الفت ومحبت کی بہترین مثال ہے۔ یہ لوگ قرآن کے اولین مخاطب بھی تھے اور اس کے نزول کا سبب بھی جس طرح نبی اکرم ؐ کو تمام انبیاء کرام میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے اسی طرح صحابہ کرامؓ کو بھی پوری امت مسلمہ میں بالخصوص اور انسانیت میں بالعموم انبیاء کے بعد نمایاں فوقیت وعظمت کا مقام حاصل ہے اور پھر اسی طرح، جس طرح رسول ؐ کی پوری زندگی کی سیرت ایمان کو جلا بخشنے اور دلوں کو ہر طرح کے زنگ سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ کی زندگی بھی ایمان کو جلا بخشنے، جذبوں کو مہمیز دینے اور دین کی بقاو سالمیت کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کا ذریعہ بھی ہے۔ اگر ہم یعنی آج کے ایمان کے دعویدار اور عشاق رسولؐ، صحابہ کرام کے نقوش پاکے حوالہ سے قرآن کریم کی ہدایات اور رسول اللہ ؐ کی سیرت سے واضح راہنمائی رکھنے کے باوجود مختلف مسائل اور آفات کا شکارہیں تو لازماً یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے قول وفعل میں تضاد اور منافقت کو اپنا لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اُمت مسلمہ اور اس کے حکمران اللہ تعالیٰ کی شدید پکڑ میں ہیں۔ یہود وہنودو نصاریٰ اور دشمنان اسلام ہمارے پیرو مرشد اور امام ہیں۔ ہماری معیشت، سیاست، معاشرت، خاندانی نظام، ذلت ومسکنت کے گڑھے میں گرنے کو ہے لیکن ہم پھر بھی قرآن وحدیث اور سلف الصالحین کی قرآن وحدیث کے احکام سے مزین زندگی سے سبق نہیں سیکھ سکتے۔ صحابہ کرام ؓ اور بلااستثنا سلف الصالحین کی زندگی قرآن حکیم کی درج ذیل آیات کی عملاً تفسیر ہے جو موجودہ اور تاقیامت آنے والی نسلوں کے لیے نشان راہ ہیں۔ فرمان الٰہی ہے ’’جن لوگوں نے کہا اللہ ہی ہمارا رب ہے اور (تمام مشکلات کے باوجود) اس پر کامل یکسوئی کے ساتھ ثابت قدم رہے، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو نہ غم کھاؤ اور خوش ہوجاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔ (حم سجدہ: 29)۔ پھر دوسری جگہ فرمان الٰہی ہے ’’جس نے کہا میری نماز، تمام مناسک عبودیت، میرا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت، جھکانے والا میں ہوں (انعام: 163)۔ پھر ارشاد الٰہی ہے ’’اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا میں مسلمان ہوں‘‘۔ (حم سجدہ: 30-33)۔ یعنی کبھی اتفاقاً نہیں کہا کہ اللہ میرا رب ہے یا میری جان ومال کا مالک، میرا دادرس، مشکل کشا اور حاجت روا ہے بلکہ اس کا عمل اس کے قول کی عملی تفسیر ہو۔ سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں کہ استقامت اختیار کرنے والے لوگ وہ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر مضبوطی سے قائم رہیں۔ دین کے دشمنوں اور مسلمانوں کے قاتلوں کے احکام کی اطاعت کرنے والے نہ ہوں۔ فرشتوں کی اس تلقین کا مطلب یہ ہے کہ باطل قوتیں خواہ کتنی ہی زور آور ہو ان سے کسی بھی صورت میں دوستی یا مداہنت سے کام نہ لیا جائے۔ حق پر ثابت قدمی کی وجہ سے جو تکلیفیں اُٹھانی پڑیں خندہ پیشانی اور جرأت کے ساتھ نیک عمل کی کھلے بندوں دعوت دیں اور اس سلسلہ میں مداہنت، منت سماجت سے قطعی احتراز کریں۔ اس عظیم کردار کی لاتعداد مثالیں ہمیں تاریخ اسلام میں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ہمارے اسلاف نے اپنے عقائد، دین کی بنیادوں کے تحفظ میں اور اللہ تعالیٰ اور ناطق وحی سیدنا محمد ؐ کے احکامات کی اطاعت میں اپنی جان ومال اپنی اولاد کی قربانی سے دریغ نہیں کیا نہ ہی کسی طرح کی مداہنت اور شش پنج سے کا م لیا۔ اس سلسلہ میں ہمارے سامنے سیدنا حسن اور سیدنا حسین ؓ و دیگر صحابہ کرامؓ میں سیدنا مصعب بن عمیر جنہیں مسلم برادری میں مصعب الخیرکا لقب ملا تھا کی عظیم قربانیاں ہمارے لیے درخشندہ مثالیں ہیں۔
سیدنا حسین ؓ نے نبی اکرم ؐ کے دین کی بقا اور اس کی سالمیت میں اپنا تمام مال ومتاع اور اپنا پورا کنبہ قربان کردیا مگر طاغوت اور اس کے کار پردازوں کے تمام مطالبات کو جوتے کی نوک پر رکھا۔ یو ں انہوں نے نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ انسانیت کے لیے تاریخ ساز قربانی کی انمٹ مثال قائم کی۔ اسی طرح رسول اللہ ؐ کے عظیم جانباز ساتھی سیدنا خبیبؓ بن عدی کو غزوہ بدر میں مکہ کے ایک مشرک کے قتل میں اس کے ورثاء نے سولی پرچڑھا کر ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ اس موقع پر کفار نے ان کے ایمان کا سودا کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں کہا کیا تو چاہتا ہے کہ اس وقت میری جگہ محمد ؐ ہو تو صحیح سلامت اپنے اہل خانہ میں ہوتو ہم تجھے چھوڑ دیں گے۔ اس موقع پر ہم جیسا کوئی نام نہاد مسلمان ہو تو اپنی جان بچانے کے لیے رخصت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اہل کفر کا مطالبہ مان لے اور اپنی جان بچالے لیکن اس عظیم جانثار رسول ؐ نے موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہوئے بھی کمال سکون اور پوری جرأت سے کہا ’’میں تو یہ بھی نہیں چاہتا کہ میرے محبوب (رسول اللہؐ) کے پاؤں میں کانٹا بھی چب جائے اور میں چھوڑ دیا جاؤں‘‘۔ عباسی خلیفہ ابوجعفرالمنصور نے امام ابوحنیفہ ؒ کو قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کا عہد پیش کیا مگر امام صاحب نے معذرت کی جس کی بنا پر اس نام کے مسلمان حکمران نے انہیں جیل میں ڈال دیا اور جیل میں ہی اُن کی وفات ہوئی مگر امام حنیفہ ؒ نے جیل جانا پسند کیا مگر یہ عہدہ قبول نہیں کیا۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ قاضی (جج) کا منصب پھولوں کی نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ہے۔ نامعلوم آج ہمارے معاشرے میں جج بننے کے لیے کس کس طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ سفارش، منت سماجت اور خوشامد کے پہاڑ عبور کرنے پڑتے ہیں پھر حکومت اپنے ڈھب کے لوگوں کو جج بھرتی کر کے مقدمات میں اپنی خواہشات کے مطابق فیصلے جاری کرواتی ہے۔ یوں مجرم کو محرم اور محرم کو مجرم بنانا آسان ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے جج حضرات (الاماشاء اللہ) مقدمات کے فیصلے کرتے ہوئے خدا خوفی، قیامت میں احساس جوابدہی اور لوگوں کی لعنت وملامت سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ اس طرح کے ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھاری مراعات تاحیات ملتی ہیں جو شرعاً ناجائز ہے۔ ہماری اسلامی تاریخ میں اس طرح کے واقعات ناپید ہیں۔ ججوں کو یہ مراعات ریٹائرمنٹ کے بعد لینے سے انکار کرنا چاہیے۔ اس میں اُن کی دنیوی اور آخروی کامیابی ہے۔ اس طرح کے اذیتناک اور قرآن وحدیث اور انسانیت کے منافی فیصلوں سے ہماری پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے۔
(جاری ہے)
دین کے اصولوں پر استقامت اختیار کرنے اور کسی بھی طرح کی کمزوری یا کوتاہی نہ دکھانے کے حوالے سے امام احمد بن حنبلؒ کی عظیم قربانی کی مثال ہماری تاریخ کا خوبصورت باب ہے جب انہوں نے اپنے وقت کے سفاک حکمران حجاج بن یوسف کے غیراسلامی اور غیرشرعی حکم کو کمال جرأت ایمانی سے مستردکردیا۔ جس کی پاداش میں اس منافق، ظالم اور سفاک حکمران نے اس جلیل القدر اور ممتاز داعی دین اور عظیم معلم دین کو کوڑے لگوائے۔ مگر امام احمد حنبلؒ نے اس ناروا ظلم کو خندہ پیشانی سے انگیز کیا اور کسی طرح کی مداہنت سے کام نہیں لیا۔ ہماری آج کی تاریخ بھی اس طرح کی نادر اور اسلامی اصولوں پر ڈٹ جانے اور پھر ا پنی جان ومال کی عظیم قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ مصر کی احیائے اسلام کی سب سے بڑی اور منظم تحریک ’’اخوان المسلمین‘‘ جس کے عظیم اور ہردلعزیز راہنما حسن البنا کو انگریز اور صہیونی طاغوت کے پرستار نام نہاد مسلمانوں نے شہید کردیا اور آج تک اس تنظیم کے مرشد عام اور ہزاروں ثابت قدم راہنماؤں اور کارکنوں کو بے دردی سے شہید کیا جارہا ہے۔ اب بھی لاکھوں کارکن جیلوں میں اذیت ناک سلوک سے گزر رہے ہیں۔ اسی تنظیم کے عظیم معلم دین اور اور معلم انسانیت اور مفسر قرآن اور لاتعداد کتابوں کے مصنف سیدقطب کو تختہ دار پر لٹکا دیا کہ انہوں نے کفر کے ایک کل پرزے جمال عبدالناصر کے احکام کو جوتے کی نوک پر رکھا۔ شہادت قبول کی مگر مداہنت سے کسی بھی صورت میں کام نہیں لیا۔ آج بھی اخوان پر ظلم وجبر جاری ہے۔
مصر کے منتخب صدر مرسی کو امریکی طاغوت کی آلہ کار فوج کے سربراہ جنرل سیسی نے اقتدار پر ناجائز قبضہ کرکے انہیں صدارت سے معزول کرکے جیل میں ڈال دیا جہاں سے انہیں اذیت ناک سلوک سے گزار کر اور لوہے کے پنجرے میں ڈال کر اپنی دجالی عدالت میں لایا گیا، آخر کار یہ سراپا عظمت و عزیمت انسان دنیا کی آنکھوں کے سامنے اسی آہنی شکنجے میں گر کر دم توڑ گیا۔ بزبان اقبال
سر خاک شہیدے برگہائے لالہ می پاشم
کہ خونش با نہال ملت ما سازگار آمد
ان شاء اللہ اسی طرح مغرب کی ایک لے پالک اور بھارت کی پروردہ بنگلا دیش کی صدر حسینہ واجد نے جماعت اسلامی بنگلا دیش کے عظیم راہنماؤں کو پھانسیاں دے کر اپنے دل کی آگ ٹھنڈی کی۔ رسول رحمت وناطق وحیؐ کی بلاچوں چراں اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور جس نے اپنی زندگی اسی اصول کے مطابق گزارکر استقامت کا مظاہرہ کیا اور ہر طرح کی دوسری اطاعتوں اور نظریات سے منہ موڑ کر برملا کہا اللہ تعالیٰ ہی میرا رب ہے، مشکل کشا ہے، میرا حاکم مطلق ہے، میرا خالق ہے اور برملا کہتا ہوں کہ میں اپنے معبود حقیقی کے مطابق پہلا اور حقیقی اطاعت گزار ہوں۔ افسوس ہے اس حقیقت پر کہ لاالہ الاللہ کے عزم پر حاصل کیا گیا مملکت پاکستان کے حکمرانوں کی تاریخ بھی اس طرح کے منافق، دین کے دشمن اور غیرملکی حکمرانوں کے ایجنٹوں سے بھری پڑی ہے۔ جب قائداعظم ؒ کی وفات کے بعد یہ ملک اس طرح کے حکمرانوں کے ہتھے چڑھ گیا جنہوں نے ملک پاکستان کی دینی، اخلاقی، سماجی، معاشی اور اخلاقی بنیادوں پر تیشہ چلانے اور کرپشن کی عظیم داستان رقم کرکے اپنے آپ کو بدنام اورکرپٹ ترین حکمران کہلوانے سے دریغ نہیں اور اسی پر بس نہیں بلکہ دین کے حقیقی اور مخلص علمائے کرام اور دانشوروں کو بدنام کرنے اور انہیں پس دیوار زنداں کرنے میں اپنا مذموم کردار ادا کیا۔ مثلاً مفسر قرآن دین کے داعی، اعلیٰ پائے کے مصنف اور عالم اسلام کے معروف راہنما مولانا سید ابوالاعلی مودودی کو قادیانیوں کے ایجنٹ فوجی حکمران، پنجاب میں مارشل لا کورٹ کے فوجی جج نے قادیانیت کی سازشوں کو ’’مسئلہ قادیانیت‘‘ پمفلٹ لکھ کر طشت از بام کرنے پر سزائے موت سنائی اور یہ بھی کہا کہ اگر مولانا مودودی رحم کی اپیل کریں تو سزا معاف ہوسکتی ہے لیکن مولانا مودودی نے اپنے بہی خواہوں کی خواہش کے باوجود معافی کی اپیل کرنے سے قطعی انکار کیا اور ساتھ ہی یہ تاریخی جملہ بھی کہا کہ اگر میری قسمت میں پھانسی کے ذریعہ موت لکھی ہوئی ہے تو میں ہزار بار منت سماجت کے باوجود موت سے نہیں بچ سکتا لیکن اگر میری قسمت میں اس وقت موت لکھی ہوئی نہیں تو یہ حکمران اُلٹے بھی لٹک جائیں تو میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ عالم اسلام کے شدید دباؤ میں آکر حکومت نے انہیں رہا کرنے کا اعلان کیا۔ یوں مولانا مودودی نے اسلام کی درخشندہ روایات اور قرآن وحدیث کے احکام اور سلف الصالحین کی سیرتوں کے مطابق مبنی برحق موقف پر جرأت واستقامت کا عظیم الشان مظاہرہ کرتے ہوئے واشگاف اعلان کیا۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اس لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی