چور کا بھائی ڈیٹا چور

625

(ہم ڈیٹا کے عہد میں جی رہے ہیں۔ اب زندہ رہنے کے لیے ڈیٹا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنی ضروری آکسیجن ہوتی ہے۔ آن لائن کلچر نے ہمیں دن رات زیادہ سے زیادہ ڈیٹا کے حصول کا عادی اور شوقین بنادیا ہے۔ ڈیٹا کے حصول کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر شخص زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتا ہے۔ حاصل شدہ ڈیٹا کو محفوظ رکھنا بھی ایک بہت بڑا دردِ سر ہے۔ ڈیٹا کی افادیت اور اُس کے تحفظ کی اہمیت کے حوالے سے احمد آباد (بھارت) کے اخبار ’’گجرات سماچار‘‘ کی 3 مارچ 2022 کی اشاعت میں شامل اداریے کا ترجمہ ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔)
………
روس نے یوکرین پر باضابطہ حملہ کرنے سے قبل سائبر حملہ کیا تھا۔ یہ گویا جنگ کے حوالے سے انتباہ تھا۔ جنگ کے بعد تو ہیکرز کی پوری ٹیم ہی کام پر لگادی گئی ہوگی۔ روس نے کئی مواقع پر ثابت کیا ہے کہ وہ ڈیٹا چوری اور ہیکنگ کے معاملات میں غیر معمولی حد تک ملوث ہے۔ امریکی صدارت انتخاب پر بھی روسی ہیکرز کے اثر انداز ہونے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں۔
دنیا بھر میں ہیکنگ کے ذریعے ڈیٹا چرانے کا کام کیا ہی جاتا تھا۔ کورونا کی وباء کے دوران دو سال کی مدت میں ہیکنگ اور ڈیٹا چوری بہت بڑھ گئی ہے۔ آج کی دنیا میں ڈیٹا ہی سب سے بڑا خزانہ ہے۔ جس نے مطلوب ڈیٹا حاصل کرلیا وہ جیت گیا۔ بڑی ریاستیں بھی اس بات سے خوف زدہ رہتی ہیں کہ کہیں کام کا ڈیٹا کسی غیر متعلق فرد، ادارے یا حکومت کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ ڈیٹا کے خزانے کو چرانے والے یعنی ہیکرز تمام سیکورٹی سسٹمز کو توڑ کر ڈیٹا کے خزانے تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ چرایا ہوا اہم ڈیٹا بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے۔ ڈیٹا فروخت کرنے والی ویب سائٹس بھی بے حساب ہیں۔ ڈیٹا تھیفٹ یعنی ڈیٹا کی چوری آج کی دنیا میں ایک بڑا تکنیکی مسئلہ ہے۔ بہت سے جاں باز قسم کے ہیکرز پُراسرار اور حسّاس ڈیٹا چراکر طشت از بام کردیتے ہیں۔ آئی ٹی کے شعبے میں غیر معمولی مہارت کے حامل ڈیٹا چور یعنی ہیکرز اپنا کام کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد ڈیٹا متعلقہ افراد، اداروں یا حکومتوں کو منہ مانگے داموں فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
ایک بار فیس بک جیسی غیر معمولی شہرت کی حامل ویب سائٹ کے سیکورٹی سسٹمز کو توڑ کر ہیکرز نے تمام صارفین کا ڈیٹا چرالیا تھا جس پر فیس بک کے مالک مارک زکربرگ کو شدید ہزیمت، خفت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اُن پر ایک الزام یہ بھی عائد کیا گیا کہ وہ خود بہت بڑے پیمانے پر ڈیٹا چرانے کے دھندے میں ملوث ہوگئے ہیں۔
روس کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو دنیا بھر سے سیاسی قائدین اور دیگر اہم شخصیات کے بارے میں ذاتی نوعیت کا ڈیٹا چُراکر اُسے متعلقہ شخصیات کو بلند قیمت پر بیچنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ کوئی بھی چیز اگر ڈیٹا کی تعریف میں آتی ہے تو اُس میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی دلچسپی ناگزیر سمجھی جاتی ہے۔ فیس بک کے پانچ کروڑ صارفین کا ڈیٹا جب چرایا گیا تب شک کی سُوئی روسی ہیکرز کی طرف ہی گھومی تھی۔ یہ الگ بات کہ فیس بک نے پانچ کروڑ صارفین کو لاگ آؤٹ کیا تھا اور دیگر چار کروڑ صارفین کو بھی لاگ آؤٹ کرنا پڑا تھا۔ بعد میں پھر مزید پانچ کروڑ فیس صارفین کا ڈیٹا چرایا گیا تھا۔
دنیا بھر میں اربوں افراد لاکھوں ویب سائٹس، سوشل میڈیا پورٹلز اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا غیر معمولی اثرات کے حامل میڈیا ثابت ہوئے ہیں مگر یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ سوشل میڈیا کے الفاظ کی وہ وقعت نہیں جو مطبوعہ الفاظ کی ہوتی ہے۔ آج بھی چَھپی ہوئی چیز ہی کو مستند تسلیم لیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کا معاملہ روز بروز سنگین ہوتا جارہا ہے۔ یہ معاملہ قانونی بھی ہے اور بنیادی حقوق سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ فی زمانہ کسی بھی شخص کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو ہیک کرنا، ڈیٹا چرانا اُس کی پرائیویسی پر حملے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے وہ قانونی کارروائی بھی کرسکتا ہے۔ جب فیس بک کے صارفین کا ڈیٹا چرایا گیا تھا تب ادارے کے مالک نے وعدہ کیا تھا کہ اب ڈیٹا ہیک نہیں کیا جاسکے گا۔ لاکھوں ڈالر خرچ کرکے نیا سیکورٹی سسٹم لایا گیا تھا مگر ساری محنت بے کار گئی کیونکہ ہیکرز نے کچھ ہی مدت بعد پھر فیس بک کے کروڑوں صارفین کا ڈیٹا ہیک کرلیا۔ اس سے یہ تو ثابت ہو ہی گیا کہ ہیکرز مارک زکربرگ کے ٹیکنوکریٹس سے کئی قدم آگے ہیں۔ ہیکرز کے سامنے ڈیٹا بینک لاچار دکھائی دیتے ہیں۔
فیس بک کا ڈیٹا ایک بار برطانیہ کی معروف کمپنی کیمبرج اینالیٹیکا نے چرایا تھا۔ جو ہونا تھا وہ ہوا مگر اُس چوری کے آفٹر شاکس تادیر محسوس کیے جاتے رہے۔ عام آدمی کو تو کچھ اندازہ ہی نہیں کہ اُس کا اپنا ڈیٹا تو بہت کم ہوتا ہے مگر کروڑوں افراد کا ڈیٹا مل کر خزانے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اس ڈیٹا کے تجزیے کے ذریعے ملکوں کو فتح کرنے یا اُن پر بھرپور طریقے سے حکومت کرنے کی منصوبہ سازی بھی کی جاسکتی ہے اور کی جاتی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں کمپنیوں کا اپنا ڈیٹا چرایا جارہا ہوتا ہے اور یہ خود دوسرے، حریف اداروں کا ڈیٹا چرانے کے لیے زمین آسمان ایک کر رہی ہوتی ہیں۔ برطانیہ اور امریکا میں آج کسی ایک شخص کے ڈیٹا کی قیمت ایک سے بیس ڈالر تک ہے۔ ویب سائٹ پر آپ ادائیگی کیجیے تو کسی کے بارے میں معلومات اس حد تک دستیاب ہوں گی کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔ چرایا ہوا ڈیٹا فروخت کرنے والی ویب سائٹس کو بلیک مارکیٹ ویب سائٹس کہا جاتا ہے۔
بیش تر بلیک مارکیٹس سائٹس روس یا پھر سوویت یونین سے الگ ہو جانے والی وسطِ ایشیا اور بحیرۂ بالٹک کی ریاستوں سے چلائی جاتی ہیں۔ مشرقی یورپ کے ممالک میں بھی بلیک مارکیٹس سائٹس کا بول بالا ہے۔ آپ اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی قسم کا ڈیٹا کچھ ہی دیر میں حاصل کرسکتے ہیں۔ ڈیٹا کی قیمت کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ ڈیٹا کسی کے لیے کس حد تک کام کا ثابت ہوسکتا ہے۔ چرایا ہوا ڈیٹا فروخت کرنے والے جیمز بونڈ اور شرلاک ہومز کے خانوادوں کے لگتے ہیں، بلکہ کہیں کہیں تو وہ اُن سے دو ہاتھ آگے پائے جاتے ہیں۔ روس کی ویب منی ٹرانسفر نامی کمپنی تو دنیا بھر میں دو نمبری لین دین کے بہت بڑے ایکسچینج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ آج کل زیرِ زمین رہتے ہوئے کاروبار کرنے والوں میں مقبولیت حاصل کرنے والی ای گولڈ ٹائپ کی ڈیجیٹل گولڈ کرنسی میں ماسکو اور دیگر روسی شہروں سے بہت بڑے پیمانے پر لین دین کیا جاتا ہے۔ بہر کیف، اب ہم ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں ڈیٹا نہیں تو کچھ نہیں۔ زندگی ڈیٹا کی لہروں پر بہہ رہی ہے۔ ساری دنیا کو چھوڑ کر اپنے پرسنل ڈیٹا کی فکر کیجیے۔ اگر وہ ہاتھ سے گیا تو بہت کچھ جاتا رہے گا۔