افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

383

’مشرک‘ کہنے میں احتیاط
یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ عقیدے، اور خصوصاً عقیدۂ توحید کا معاملہ بڑا ہی نازک ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر کفر وایمان اور فلاح وخسران کا مدار ہے۔ اس معاملے میں یہ طرزِعمل صحیح نہیں ہے کہ مختلف احتمالات رکھنے والی آیات اور احادیث میں سے ایک مطلب نچوڑ کر کوئی عقیدہ بنالیا جائے اور اسے داخل ایمانیات کردیا جائے۔ عقیدہ تو صاف اور صریح محکمات سے ماخوذ ہونا چاہیے، جن میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے ایک بات ماننے کی دعوت دی ہو، اور یہ ثابت ہو کہ نبیؐ اْس کی تبلیغ فرماتے تھے، اور صحابہ کرامؓ و تابعین و تبع تابعین اور ائمہ مجتہدینؒ اْس پر اعتقاد رکھتے تھے۔ کیا کوئی شخص بتا سکتا ہے کہ نبیؐ کے عالم الغیب والشہادۃ ہونے یا جمیع ما کان وما یکون کے عالم ہونے کا عقیدہ یہ نوعیت رکھتا ہے؟
یہ عقیدہ اگر واقعی اسلامی عقائد میں شامل ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اس کی تصریح فرماتا کہ میرے رسولؐ کو حاضرو ناظر تسلیم کرو۔ نبیؐ خود یہ دعویٰ فرماتے اور اسے ماننے کی دعوت دیتے کہ میں ہر جگہ موجود ہوں، اور قیامت تک حاضرو ناظر رہوں گا۔ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ میں یہ عقیدہ عام طور پر شائع ہوتا اور عقائد اسلام کی کتابوں میں اسے ثبت کیا جاتا۔
میں ان مسائل میں [ایسے] خیالات کو تاویل کی غلطی سمجھتا ہوں، اور اسے غلط کہنے میں تامل نہیں کرتا۔ مگر مجھے اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ انھیں ’مشرک‘ کہا جائے اور مشرکینِ عرب سے تشبیہہ دی جائے۔ میں ان کے بارے میں یہ گمان نہیں رکھتا کہ وہ شرک کو شرک جانتے ہوئے اس کے قائل ہوسکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ توحید ہی کو اصل دین مانتے ہیں اور اسی پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ اس لیے انھیں ’مشرک‘ کہنا زیادتی ہے۔ البتہ انھوں نے بعض آیات اور احادیث کی تاویل کرنے میں سخت غلطی کی ہے اور میں یہی اْمید رکھتا ہوں کہ اگر ضد دلانے والی باتیں نہ کی جائیں بلکہ معقول طریقے سے دلیل کے ساتھ سمجھایا جائے تو وہ جان بوجھ کر کسی گمراہی پر اصرار نہ کریں گے۔ (رسائل و مسائل، ترجمان القرآن، مارچ 1962ء)
٭…٭…٭
تبلیغ اور اقامتِ دین
تبلیغ کا مفہوم اسلام کی تعلیمات کو فقط پہنچا دینا ہے، یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اخلاق، اعمال اور معاملات میں کیا کیا ہدایات دی ہیں، بندگانِ خدا کو ان چیزوں سے آگاہ کر دینے کا نام تبلیغ ہے۔ یہ سب امور واضح کر دینے کے بعد مبلغ کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی ذمے داری باقی نہیں رہتی۔ لیکن اقامتِ دین کے کام کا آغاز اس نکتے سے ہوتا ہے، جہاں تبلیغ کا کام ختم ہوتا ہے۔ تبلیغ اقامتِ دین کی تمہید ضرور ہے، لیکن یہ ختم ہوجاتی ہے، جب تعلیماتِ دین پہنچ جائیں۔ ہمارا مقصد صرف تبلیغ نہیں بلکہ اقامتِ دین ہے اور یہ ذمے داری ہم نے ازخود نہیں لی، بلکہ ہم پر ڈالی گئی ہے، جیسا کہ قرآن میں آتا ہے کہ ترجمہ: ’’اس دین کو قائم کرو‘‘۔ (الشورٰی13) چونکہ ہم انبیا کے وارث ہیں اس لیے یہ مقصد از خود ہمارا مقصد بن جاتا ہے۔
(رحیم یار خان میں اجتماعِ سے خطاب، 23 مارچ 1968ء)