(یوکرین کے بحران پر دنیا بھر کے پرنٹ میڈیا میں بہت کچھ شایع ہو رہا ہے۔ یوکرین سے ہمدردی جتانے والے بھی کم نہیں تاہم امریکا و یورپ پر طنز و تنقید کے تیر چلانے والے اُن سے زیادہ ہیں۔ بھارت کے متعدد شہروں سے شایع ہونے والے معروف اخبار ’’ڈیلی ہندی ملاپ‘‘ کے لیے سُشیل دیکشت وِچتر کا تجزیہ ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔)
………
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے 23 فروری کو رات دیر گئے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے یوکرین کے خلاف جنگ نہ چھیڑنے کی استدعا کی۔ پیوٹن نے یہ استدعا مسترد کردی اور یوکرین پر ہلّا بول دیا۔ روسی افواج ملک کے طویل و عرض میں موجود ہیں اور یوکرین کا دارالحکومت کسی بھی وقت روسی فوج کے تصرف میں آسکتا ہے۔ روسی صدر کے ارادے بھانپنے کے بعد امریکا اور یورپ نے پسپائی اختیار کرنے کو ترجیح دی اور واضح اعلان بھی کیا کہ یوکرین کے دفاع کے لیے امریکی فوج نہیں بھیجی جائے گی۔ ہاں، یوکرین چاہے تو اسلحہ لے سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا کیا کردار کیا ہوگا، کچھ واضح نہیں۔ ایک بات البتہ پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے … یہ کہ جب تک اقوام متحدہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوگا تب تک یوکرین کا حشر نشر ہوچکا ہوگا۔
یوکرین ایک زمانے تک سوویت یونین کا حصہ رہا۔ 1991 میں جب سوویت یونین تحلیل ہوا تو یوکرین کو بھی ایک الگ، خود مختار ملک کی حیثیت سے جینے کا موقع ملا۔ 2008 میں یوکرین نے معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (ناٹو) میں شمولیت کی کوششیں شروع کریں۔ امریکا اس کا ساتھ دے رہا تھا تاہم روس نے یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ ایسا ہونے سے اُس کی سلامتی اور سالمیت خطرے میں پڑے گی۔ اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اگر یوکرین کو ناٹو کی رکنیت مل گئی تو اس اتحاد کی افواج کے ٹھکانے یوکرین سے آ لگیں گے اور یوں مشکلات بڑھ جائیں گی۔ یوکرین سے روس کا تنازع بہت پرانا ہے۔ جب ناٹو نے جارجیا اور یوکرین کو اپنا رکن بنانے کا اعلان کیا تو روس نے جارجیا پر حملہ کرکے اُسے تباہ کر ڈالا۔ یہ روس کی طرف سے واضح اعلان تھا کہ وہ مشرقی یورپ میں ناٹو کی توسیع کسی بھی صورت قبول نہیں کرے گا۔ 2014 تک یوکرین پر روس کا بالواسطہ تصرف تھا۔ تب مغربی یورپ اور امریکا نے مل کر سازش کے تحت روس کے حمایت یافتہ یوکرینی وزیر اعظم کو ہٹادیا۔ تب بھی روس نے یوکرین پر حملہ کردیا تھا۔ تب سے اب تک خوں ریز تصادم میں کم و بیش 14 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں۔ 2019 میں زیلنسکی یوکرین کے صدر منتخب ہوئے۔ خاصے پُرجوش قوم پرست ہیں۔ انہوں نے یوکرین کے لیے ناٹو کی رکنیت یقینی بنانے کی کوششیں شروع کیں۔ ایک بار پھر روس کے لیے خطرے کی گھنٹی بجی۔ سرحدوں پر روسی افواج کی نقل و حرکت بڑھ گئی۔ گزشتہ برس نومبر ہی سے یوکرین کی سرحد پر روسی افواج کی غیر معمولی سرگرمیاں دیکھی جارہی تھیں۔ اس کے بعد ایک دوسرے کو نصیحتیں کرنے اور دھمکانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب یہ سب کچھ جنگ کی شکل میں سامنے آچکا ہے۔
یوکرین کی قیادت کو یقین تھا کہ روس کا حملہ ہونے کی صورت میں ناٹو کے ارکان اُس کی مدد کے لیے آگے آئیں گے اور جنگی ساز و سامان سے اُس کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ ناٹو کے بیش تر ارکان روسی حملوں کے خلاف ہیں اور انہوں نے روسی قیادت سے کہا ہے کہ اپنی افواج واپس بلالے۔ امریکا اور یورپی ممالک نے روس پر پابندیاں بھی عائد کی ہیں تاہم صدر پیوٹن ان پابندیوں کا زیادہ اثر لیتے دکھائی نہیں دے رہے۔ انہوں نے ناٹو، امریکا اور یورپ کے ہر انتباہ کو مسترد کرتے ہوئے صاف صاف کہا ہے کہ جو بیچ میں آئے گا، نتائج کا خود ذمے دار ہوگا۔
اسٹرٹیجک اعتبار سے دیکھیے تو ناٹو کا پلڑا بھاری ہے مگر ناٹو اور یورپی یونین براہِ راست کچھ کرنے سے صاف کترا رہے ہیں۔ روس کو جو دھمکیاں دی جارہی ہیں اُن پر کھرا اترنے کی کوشش کوئی بھی ملک یا اتحاد نہیں کر رہا۔ معاملات و حالات دیکھ کر لگتا نہیں کہ کوئی بھی ملک آگے بڑھ کر روس سے براہِ راست دشمنی مول لینا پسند کرے گا۔ اب یوکرین کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی کہ وہ اپنے کاندھے پر رکھی ہوئی امریکا کی جس بندوق کے بھروسے پر روس سے ٹکرانے کا فیصلہ کر بیٹھا اُس بندوق ہی نے اُس کا کاندھا توڑ دیا۔ امریکا اور یورپ نے روس کو جو دھمکیاں دی ہیں ویسی ہی دھمکیاں اُس وقت بھی دی گئی تھیں تب طالبان نے دوبارہ ابھر کر افغانستان میں مغرب نواز حکومت کو تختہ الٹ دیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یوکرین کمزور پڑتا جارہا ہے، مکمل تباہی کی طرف بڑھتا جارہا ہے۔ اوپر سے دیکھیے تو ایسا لگتا ہے کہ یورپی تنظیمیں روس کے خلاف کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ ناٹو اور امریکا نے یوکرین کے لیے فوج بھیجنے سے انکارا کا صاف اعلان کردیا ہے۔ ہر طرف سے مایوس ہوکر یوکرین نے پاکستان اور بھارت سے معاملات درست کرانے میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔ یوکرین نے ہر اہم مسئلے پر بھارت کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے اور اُس پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے یوکرین کے بحران پر اپنے بیانات میں کہا ہے کہ معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہی درست طریقہ ہے۔ اگر بات چیت نہ کی گئی تو دنیا کے لیے اس بحران کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے۔ پیوٹن نے بھارت کی غیر جانب دار حیثیت کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ یوکرین اِس نوعیت کی بیان بازی سے مطمئن نہیں۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے خلاف مذمتی قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالنے سے گریز کیا۔ اُس نے رائے شماری میں حصہ ہی نہیں لیا۔
معاملات کی نوعیت دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یوکرین کے حالات ابھی اور بھی خراب ہوں گے اور اِس کے نتیجے میں اُس سے جُڑے ہوئے خطے بھی مشکلات کا شکار ہوں گے۔ یوکرین اکیلا پڑچکا ہے۔ جن کے بھروسے اُس نے روس سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا وہ بہت پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ روس کے ساتھ اب بھی اُس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بیلارس نے تو اپنے فوجی بھی اتار دیے ہیں۔ اب یہ حملے اُسی وقت رُک پائیں گے جب روس کو اس بات کا یقین ہو پائے گا کہ اُس کی سرحدوں پر ناٹو کے اڈے نہیں بن پائیں گے۔
یوکرین کے بحران سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ اقوام متحدہ ایک ناکام ادارہ ہے۔ اُس نے مذمتی بیان جاری کرنے اور اجلاس بلانے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے خطرے سے دوچار دیکھ کر بھی اقوام متحدہ کا کردار خاموش تماشائی کا ہے۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ یوکرین کے لیے کوئی بھی بڑا ملک یا اتحاد آگے بڑھ کر کچھ کرتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ ایک پورے خطے کو شدید عدم استحکام کی طرف بڑھتا دیکھ کر بھی کوئی نہیں کر رہا۔ یہ واقعی بہت دکھ کی بات ہے۔