لاڑکانہ(نمائندہ جسارت) نوشین کاظمی کا پوسٹ مارٹم کرنے والی ایم ایل او ڈاکٹر رخسار سموں کی جانب سے پولیس سرجن لاڑکانہ اور پرنسپل چانڈکا میڈیکل کالج کو خط لکھا گیا جس میں نوشین کاظمی کے حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کرنے کے لیے خاص میڈیکل بورڈ تشکیل دینے اور چانڈکا لیبارٹری سمیت لمس لیب میں موجود نوشین کے تمام سیمپلز کو سندھ سے باہر کسی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانے کا مطالبہ کیا ہے، ڈاکٹر رخسار کا کہنا ہے کہ فارنسک رپورٹس متضاد ہیں چانڈکا لیبارٹری کی رپورٹ کے مطابق نوشین کے سیمپلز سے کسی مرد کے اجزاء سامنے نہیں آئے جبکہ لیاقت یونیورسٹی لیبارٹری کی رپورٹ میں مرد کے ڈی این اے ملنے کا بتایا گیا ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ صوبہ سندھ سے باہر کسی فارنسک لیبارٹری سے نوشین کے سیمپلز دوبارہ ٹیسٹ کروائے جائیں ڈاکٹر رخسار سموں کے خط کے جواب میں پرنسپل چانڈکا میڈیکل کالج ڈاکٹر گلزار شیخ کا کہنا تھا کہ ایم ایل او کا خط جوڈیشل انکوائری جج کو پیش کیا جاچکا ہے رابطہ کرنے پر ڈاکٹر گلزار شیخ کا کہنا تھا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ڈاکٹر رخسار سموں کسی دبائو کا شکار ہیں یا نہیں اور عدالت کی جانب سے اس موضوع پر انہیں بات چیت کرنے سے روکا گیا ہے اس لیے وہ کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے تاہم ڈاکٹر رخسار سموں کی درخواست پر پولیس سرجن لاڑکانہ ڈاکٹر قیوم راجپر کی جانب سے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ لاڑکانہ کو تحریری طور پر میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کے لیے بالا افسران سے رابطہ کرنے کی درخواست کر دی گئی ہے دوسری جانب ایس ایس پی لاڑکانہ سرفراز نواز شیخ کی جانب چانڈکا لیبارٹری کی جاری کردہ فارنسک رپورٹ کی دوبارہ تصدیق بھی کروا لی گئی ہے پیتھالوجسٹ ڈاکٹر راج کمار آہوجا نے اپنی جاری کردہ فارنسک رپورٹ کی تحریری طور پر تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوشین کاظمی کے جسم سے مردانہ اجزاء نہیں ملے اور انہوں نے انتہائی ذمہ داری سے فارنسک رپورٹ جاری کی ہے تاہم ذرائع کے مطابق ڈاکٹر راج کمار آہوجا کی تصدیق کے مطابق بھی جوڈیشل انکوائری جج کو آگاہی دی جاچکی ہے تاہم نوشین کاظمی جوڈیشل انکوائری کا عمل جاری ہے اور اب میڈیکل سپریٹنڈنٹ لاڑکانہ کی جانب سے ڈی جی سندھ کو خاص میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی استدعا کی جائے گی دوسری جانب قائم مقام وائس چانسلر جامع بینظیر حاکم ابڑو کے اعلانیہ گرلز ہاسٹل عملے کے ڈی این اے ٹیسٹس بھی تاحال نہیں لیے جاسکے، اور اس متعلق لیاقت یونیورسٹی جامشورو انتظامیہ کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ پولیس سمیت جامع بے نظیر بھٹو کو ڈی این اے سیمپلز لینے کا پروٹوکول بتا دیا گیا ہے تاہم ابھی تک انہیں کوئی سیمپل نہیں بھیجا گیا، دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر رخسار سموں پر دبائو ڈالا جارہا تھا کہ وہ جلد از جلد حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کریں اور اس میں چانڈکا لیبارٹری کی رپورٹ کو نظرانداز کر کے صرف لمس لیبارٹری جامشورو کی رپورٹ کا ذکر کریں تاکہ جبری رخصت پر بھیجی گئی وائس چانسلر جامع بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر انیلا عطاالرحمان کے خلاف اس پوسٹ مارٹم رپورٹ کو 8 مارچ کو ہونے والی سندھ ہائی کورٹ کی سنوائی میں استعمال کیا جاسکے لیکن ڈاکٹر رخسار سموں کے انکار کے بعد انہیں پولیس سرجن ڈاکٹر قیوم راجپر کی جانب سے مبینہ طور میڈیکل بورڈ کا مطالبہ کرنے کا کہا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بیشتر عناصر یہ چاہتے ہیں کہ وائس چانسلر جامع بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اب لاڑکانہ واپس نہ آئیں اور قائم مقام وائس چانسلر حاکم ابڑو کو مستقل وائس چانسلر کے طور پر چارج دے دیا جائے۔