آئی ایم ایف سے چھٹکارا، مراعات کے خاتمے سے ممکن

571

وزیراعظم اور وزرائے اعظم ارشاد فرماتے ہیں کہ مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے اگر ان کی اس بات کو درست تسلیم کر ہی لیا جائے تو اس سے نبٹنا تو ملک ہی میں ہوگا۔ عوام کو بھوکا مرنے اور خودکشی سے بچانے کے لیے کچھ تو کرنا ہوگا۔ پٹرول یقینا عالمی مسئلہ ہے مگر مرغی، انڈے، سبزیاں، دالیں، چاول، گندم یہ سب تو ملکی پیداوار ہیں ان کو تو لگام ڈالی جاسکتی ہے۔ ایک ہفتے مرغی مہنگی ہوتی ہے تو دوسرے ہفتے انڈے۔ کبھی ٹماٹر کے مزاج نہیں ملتے تو کبھی بھنڈی کو پَر لگ جاتے ہیں۔ گرم مسالحے کے مزاج تو پہلے ہی گرم ہیں، سرخ مرچ کی سرخی نے چہرے کی سرخی ہی اُڑا دی۔ پٹرول مہنگا ہوا تو دودھ والوں نے بھی اضافے کی دھمکی دے ڈالی جو پہلے ہی 120 روپے فی لٹر کے بجائے 140 روپے فی لٹر فروخت ہورہا ہے اور گوشت والوں نے تو عوام کے گلے پر ہی چھری پھیر رکھی ہے۔ پھر رمضان کی آمد آمد ہے، ذخیرہ اندوزوں نے ذخائر کے انبار لگانا شروع کردیے ہیں۔ ان سب چیزوں کو تو ملک کے اندر ہی کنٹرول کرنا ہوگا کوئی عالمی ادارہ تو دیکھے گا نہیں۔ آخر یہ چار درجن سے زیادہ وزرا، مشیران اور معاون خصوصی کس مرض کی دوا ہیں جو قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور نوجوانوں کی ٹائیگر فورس کیا گوشت کھانے کے لیے رکھی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان ماضی میں نہ وزیر رہے اور نہ ہی مشیر۔ چناں چہ ان کو حکومت چلانے کے گُر کا علم نہیں اور اسی نا تجربہ کاری کا فائدہ اپوزیشن اور بیوروکریسی اٹھا رہی ہے۔ اپوزیشن نے تمام مافیاز کو کنٹرول کررکھا ہے اور بیوروکریسی نے عمران خان کو۔ اگر کبھی اپنی من مانی کرنے کی کوشش کی تو دھوبی پاٹ دے مارا۔ یہ ابھی ماضی ہی کی بات لگتی ہے جب پٹرول کی قیمت میں کمی کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے سو روپے لٹر فروخت ہونے والا پٹرول پچھتر روپے کردیا تو پمپوں سے پٹرول ہی اُڑ گیا۔ اس بحران سے نکالنے کے لیے کابینہ نے مشورہ دیا کہ فیصلہ واپس لے لیا جائے۔ بحران ختم ہوجائے پھر ایسا ہی ہوا تمام پمپ پر پٹرول کے ذخائر ظاہر ہوگئے۔ عمران خان نے اس مصنوعی بحران کے ذمے داروں کے تعین کے لیے کمیٹی بنائی اور آخر کار پٹرول کمپنیوں پر جرمانہ عائد کرکے معاملہ رفع دفع کردیا گیا اور اس دوران پٹرول مزید مہنگا ہوتا چلا گیا اور یوں ریلیف عوام کے بجائے ڈیلرز کو دے دیا گیا۔ 55 روپے بکنے ولی چینی اچانک 80 روپے کردی گئی۔ حکومت کو ہوش نہیں جوش آیا اور چینی کے گوداموں سے ہزاروں نہیں لاکھوں من چینی برآمد کرلی گئی۔ چینی مافیا پر مقدمات چلتے رہے اور چینی کی قیمت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور جب ریٹ 150 ہوئے تو پتا چلا چینی تو افغانستان بھیج دی گئی پھر ملکی ضرورت پوری کرنے کے لیے باہر سے چینی درامد کرنا پڑی اور آج سرکاری ریٹ 90 روپے پر فروخت ہورہی ہے۔ اس سے چھٹکارا ملا تو گندم کا بحران پیدا ہوگیا۔ گندم چوہوں نے کھائی اور آٹا گوداموں میں ڈمپ کرلیا گیا، پھر جوش آیا آٹے کے ذخائر برآمد ہوئے مگر عوام آج بھی 80 روپے فی کلو خریدنے پر مجبور ہیں۔ ان فتوحات کے بعد مافیا نے کھاد کا بحران کھڑا کردیا اور وزرا راگ الاپتے رہے کہ یہ سب کچھ ماضی کے حکمرانوں کا کیا دھرا ہے مگر آج بھی ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد بھی اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ کرپشن ثابت کرکے دکھائو اور بقیہ ڈیڑھ سال بھی ایسے ہی روتے سوتے گزر جائے گا کیوں کہ اپوزیشن صرف دعویٰ کرتی ہے اور رائے شماری کے وقت خود ان کے اراکین تیر لے کر شیر کی تلاش میں نکل جاتے ہیں (جو لندن میں دبک کر بیٹھا ہے)۔
وزیر اطاعت فواد چودھری فرماتے ہیں اگر اپوزیشن کے پاس مہنگائی کم کرنے کا کوئی فارمولا ہے تو بتائے۔ میرے بھولے بادشاہ اپوزیشن خود اپنے پیر پر کلہاڑی کیوں مارے گی خود آپ کے وزیر نے مراعات ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ مراعات ختم کردی جائیں تو مہنگائی ختم نہیں تو کم ضرور ہوگی۔ مراعات کیا ہوتی ہیں ملاحظہ فرمائیں، آئی ایم ایف کے نامزد کردہ گورنر اسٹیٹ بینک کی مراعات تنخواہ صرف 25 لاکھ روپے، سالانہ اضافہ 10 فی صد یعنی دو سال بعد تنخواہ 30 لاکھ روپے ہوجائے گی۔ رہائش کے لیے ایک سازو سامان کے ساتھ بنگلہ یا اس کے برابر رقم کرائے کی مد میں۔ اب ظاہر سی بات کسی پوش علاقے میں ایسا بنگلا دو ڈھائی لاکھ سے کم کرائے پر تو ملے گا نہیں۔ اب اگر گورنر صاحب کے پاس ذاتی رہائش ہے تو کرائے کی مد میں دو ڈھائی لاکھ اضافی وصول کرسکیں گے۔ چار گھریلو ملازم رکھنے کی سہولت فی کس 18 ہزار روپے ماہانہ۔ اب یہ آپ کی صوابدید پر ہے آپ کتنے ملازم رکھنا چاہتے ہیں، آپ کو 72 ہزار روپے ملیں گے۔ بجلی، گیس، پٹرول، جنریٹر اور موبائل کی مفت سہولت۔ مکمل علاج کی سہولت کوئی حد مقرر نہیں۔ بس بل دیں اور کیش لیں۔ ہر ماہ 3 چھٹیوں کی سہولت، ہفتہ وار دو چھٹیاں الگ۔ ایک دور کی منصوبہ بندی ٹرانسفر ہونے کی صورت میں مع خاندان ہوائی ٹکٹ کی فراہمی اور سامان کی ترسیل کی سہولت۔ بچوں کے اسکول کی فیس میں 75 فی صد ادائیگی سرکاری خزانے سے۔ کلب کے اخراجات کی اضافی سہولت۔ 24 گھنٹے سیکورٹی کا نظام۔
یہ تو تھی زندہ (آن ڈیوٹی) فرد کی مراعات اور اب آئیے معذرت کے ساتھ مردہ (ریٹائرڈ) فرد کی مراعات بھی ملاحظہ کریں۔ چیف جسٹس آف پاکستان ریٹائرڈ ہونے کے بعد ساڑھے آٹھ لاکھ روپے ماہانہ پنشن وصول کریں گے جب کہ EOBI کے مزدور کی پنشن صرف ساڑھے 8 ہزار ہے جو سرکاری خزانے سے نہیں ان کی اپنی جمع پونجی سے ملتی ہے۔ ایک ڈرائیور ایک نوکر 24 گھنٹے 3000 لٹر پٹرول، 2500 کیوبک گیس، 2000 یونٹ بجلی مگر چیف جسٹس صاحبان کے حصے میں صرف ساڑھے آٹھ لاکھ روپے ہی آتے ہیں البتہ بقیہ مراعات پر ان کے لواحقین عیش کرتے ہیں کیوں کہ چیف جسٹس صاحبان ریٹائرڈ ہونے کے بعد بیرون ملک بنائے گئے اثاثوں پر قابض ہونے کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک جلسہ عام میں بیٹھے ہوئے صحافی حضرات سے کہا کہ وہ عوام کو بتائیں مہنگائی کیوں ہورہی ہے پھر اعتراف کرتے ہیں کہ بے شک مہنگائی ہوئی ہے تو میں سارا سارا دن سوچتا رہتا ہوں کہ عوام کے لیے کیا کروں۔ ہم کوئی صحافی تو نہیں البتہ ہمارے ایک دوست ہمیں لکھاری کہتے ہیں تو ہم آپ کی پریشانی دور کردیتے ہیں اور آپ کو بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے کیا کرنا ہے کام ذرا مشکل ہے آپ سے ہوگا نہیں پھر بھی اپنی ذمے داری پوری کرتے ہیں۔ اگر آئی ایم ایف سے قرض لینا مجبوری ہے اور ملکی مفاد میں ہے تو اسے ملکی مفاد میں ہی خرچ کیا جائے اس قرض کا بوجھ عوام پر ڈالنے کے بجائے خواص کی مراعات ختم کردی جائیں۔ سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین، صدر، وزیراعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ صاحبان، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور قائد حزب اختلاف، چیئرمین ڈپٹی چیئرمین اور لیڈر آف اپوزیشن، آرمی چیف و دیگر سربراہان تمام جرنلز، جج صاحبان اور افسران شاہی کی مراعات یکسر ختم کردی جائیں اور ان سے اپیل کی جائے کہ جب تک ملک کی معیشت درست نہیں ہوتی آپ حضرات کو صرف تنخواہ ہی پر گزارہ کرنا ہوگا کہ یہی ریاست مدینہ کا تصور ہے۔ پھر دیکھیں آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
اچھی بات کوئی بھی کرے اسے سراہنا چاہیے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے پٹرول کی قیمت میں اضافے پر ایک اچھا جملہ ارشاد فرمایا۔ ’’پاکستان میں پٹرول کی قیمت میں اضافہ عالمی منڈی میں اضافے کی وجہ سے ہوا جو کہ ٹیکس میں کم کیا جاسکتا تھا‘‘۔ دانش مندی کا تقاضا ہے کہ پٹرولیم لیوی میں زائد اضافہ پٹرول میں کمی کے وقت کیا جائے تا کہ تیزی کے وقت وزیراعظم صاحب جوش سے نہیں ہوش سے کام لیں ورنہ یہ لولی لنگڑی چوروں اور ڈکیتیوں کی ٹولی تو آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی مگر ڈیڑھ سال بعد عوام آپ کا صفایا اس طرح کریں گے کہ
تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں