شاہ محمود قریشی پاکستان کے وزیر خارجہ ہیں لیکن سخت تعجب کی بات ہے کہ وہ اس وقت جب کہ دنیا کے حالات دگر گوں ہیں اور روز بروز نئے چیلنج سر اٹھا رہے ہیں، سندھ میں پیپلز پارٹی کے تیر کو توڑنے کے لیے مارچ میں ایسے مگن ہیں کہ شاید اس مارچ کے نتیجے میں وہ وزارت عظمیٰ کی خواہش پوری کر سکیں گے۔ ایسے حالات میں کسی ملک میں نہیں دیکھا کہ وزیر خارجہ ملک کی خارجہ پالیسی سے یکسر بے تعلق ملک کی سیاست میں الجھا ہو۔ خارجہ پالیسی سے اسی بے تعلقی کی وجہ سے انہوں نے پچھلے دنوں وزیر اعظم عمران خان کو غلط اور خطرناک مشورے دیے۔ ان میں سر فہرست روس کے بے وقت دورے کا مشورہ تھا۔ ان کے مشیروں کا یہ استدلال رہا ہے کہ روس کا یہ دورہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک نئی جہت کا مظہر ہے اور روس سے گندم کی خریداری اور گیس کی سپلائی کے لیے بے حد اہم تھا۔ حقیقت بالکل بر عکس تھی۔ اول تو اس وقت روس سے گندم خریدنے کی ضرورت نہیں تھی دوسرے روس سے گیس کی سپلائی ممکن نہیں کیونکہ روس سے گیس کی سپلائی کے لیے پاکستان تک کوئی گیس پائپ لائن نہیں۔
وزیر اعظم کے مشیروں نے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وزیر اعظم کا روس کا یہ دورہ ملک کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کا مظہر ہے۔ اور اس دورے کی کامیابی کا یہ ثبوت پیش کیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی ولادمیر پیوٹن سے ملاقات جو ایک گھنٹے مقرر تھی تین گھنٹے تک جاری رہی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا اہم فیصلے ہوئے البتہ یہ اعلان ہوا کہ روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا ہے جس کے بعد دنیا کے بیش تر ممالک نے روس سے اقتصادی تعلقات منقطع کر لیے ہیں جس کے اثرات سے پاکستان نہیں بچ سکتا۔ کیا وزیر اعظم کے مشیر اسے روس کے دورے کے لیے لاجواب وقت قرار دیں گے۔
اب کون گھوٹکی میں جا کر ملک کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے پوچھے کہ یہ وقت ملک کے امور خارجہ کی دیکھ بھال کے لیے ضروری ہے یا سندھ کا دورہ؟ کیا ہمارے وزیر خارجہ کو اس کی خبر ہے کہ کس تیزی سے اسرائیل، عرب ممالک میں اپنے آپ کو تسلیم کرانے کی کوششوں میں کامیاب ہو رہا ہے اور تیزی سے پاکستان کی سمت بڑھ رہا ہے۔ اب اس کے اشارے آرہے ہیں کہ سعودی عرب بھی اسرائیل کی جانب مائل ہو رہا ہے۔ اور دوسری جانب اسرائیل کے ہندوستان کے ساتھ تعلقات استوار ہو رہے ہیں۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ کو امور خارجہ سے کوئی دلچسپی نہیں اور ملک کی خارجہ پالیسی یکسر بے سمت ہو گئی ہے۔