چلو کرتے ہیں اب، وہ جو پہلے کبھی ہو نہ سکا ــــ

582

شہر قائد میں ایک سروے ایسا بھی ہونا چاہیے کہ جس کی بابت یہ پتا چلایا جا سکے کہ کورنگی، اورنگی، کیماڑی، لیاری، لالوکھیت، رنچھوڑلائن، جٹ لائن، پٹیل پاڑہ اور اسی طرح کے دیگر علاقوں میں موجود، مکینک کی دکانوں پر بیٹھے، استادوں سے فحش کی گالیاں سنتے، 10سال سے کم عمر بچوں کی تعداد آخر ہے کیا؟ اس بات کی بھی کھوج لگائی جائے کہ 4سے 6 سال کی عمر کے کتنے بچے سڑکوں، چوراہوں اور ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگ رہے ہیں؟ ہر روز بھوک کے ہاتھوں مجبور، کھانا ملنے کا انتظار کرتے، خالی پیٹ زندگی کی جنگ لڑتے، اور پھر بھوک کی تاب نہ لاتے ہوئے اُس جنگ کو ہارتے، ابدی نیند سوجانے والے کتنے ہیں؟؟ بہیمانہ جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار ہونے والے بچوں کا شمار کیا جائے، عالیشان کوٹھیوں اور بنگلوں میں نوکر کے فرائض سنبھالے کسی کم سن وجود کی بے بسی سے آگاہی حاصل کی جائے، یہ تحقیق بھی کی جائے کہ ایسے بچے کتنے ہیں جو اسکول جانا اور پڑھنا لکھنا چاہتے ہیں لیکن مجبور ہیں، لاچار بھی۔ سروے کے ذریعے یہ بھی معلوم کیا جائے کہ کچرے کے ڈھیر پر اپنا رزق تلاش کرنے والے معصومین کی تعداد کیا ہے، کتنے ہیں جو بیچارے یتیم اور مسکین تو ہیں ہی، معذور بھی ہیں اور بے توجہی کا شکار بھی!! تحقیقات پر گفتگو کرتے ایک سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں بحیثیت ِ محب وطن پاکستانی کسی ایک شہر کے اس نوعیت پر مبنی اعداد وشمار اور تفصیلات سے آگاہی ہے؟ اگر نہیں تو پھر پورے ملک میں بسنے والے بے بس ولاچار بچوں کی حالت ِ زا ر کیا ہے، کیسے اندازہ ہو!! لیکن ٹھیک ہی تو ہے، ایسے اندازے لگائے ہی کیوں جائیں، ایسی باتوں کے بارے میں کیوں سوچا جائے کہ جن کا نہ کوئی حاصل ہے اور نہ ہی وصول، کیا فائدہ ان تفصیلات میں خود کو الجھانے کا، اپنی ہی پریشانیاں اور مسائل کیا کم ہیں جو بلاوجہ ایک نئی فکر اپنے اُوپر سوار کر لی جائے، یہ سب ایسے ہی چلتا آیا ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا‘‘۔ یہی سوچ، جی ہاں، ہماری یہی سوچ ہر خرابی کو جلاِ بخش رہی ہے، نظام کو ٹھیک نہیں ہونے دے رہی، بچوں سے جڑے سنگین اور بد ترین مسائل کے حل میں ہم سب کا کردار ہے جو ہم ادا نہیں کر رہے، یا اگر کر بھی رہیں ہیں تو وہ انتہائی ناکافی ہے۔ بچوں سے وابستہ حساس ترین مسائل کے حل میں اپنے، اپنے حصے کی ذمے داریاں ادا نہ کرنا بھی غفلت ہے، یہ سمجھ لینا کہ ان معاملات سے لا تعلقی اس لیے جائز ہے کیونکہ ہمارے اپنے بچے تو بہت خوش و خرم اور آرم دہ زندگی گزار رہے ہیں، ایک بھُول ہے!! لاتعداد خاردار کانٹوں کے بیچ کھلیِ پھولوں کی خوبصورتی کو بھلا کیسے محسوس کیا جاسکتا ہے، چاروں جانب اندھیرا ہو تو پھر چمکتے، دمکتے شاداب چہرے دکھائی نہیں دیا کرتے، پتھروں کی بستی میں بنا کوئی شیش محل کیسے اور کیونکر محفوظ رہ سکتا ہے!! ا یسے مسائل ملک کی (منفی) کردارسازی میں بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، ہماری پہچان ہمارے وطن سے ہے، آج غیر ملکی ائر پورٹوں پر پاکستانیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک پر بنے لطیفے ایک دوسرے کو سُنائے جاتے ہیں، ترقی یافتہ ملکوں میں بسنے والے پاکستانیوں کی مشکلات پر طرح، طرح کے مذاق بنا لیے جاتے ہیں، یہ سب اسی لیے ہے کہ ہم سب اپنے، اپنے تئیں لا تعلقی برت رہے ہیں، مسائل کی حساسیت کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں!!
اقتدار کی نشستوں پر براجمان حکامِ بالا اگر ذمے داریاں نہ نبھانا چاہیں تو نہ سہی، ہم عوام ہی، ہاتھوں میں تھامے ہاتھ ایک نئے عزم، جذبے اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، کچھ سوچتے ہیں، کچھ کرتے ہیں، کچھ ایسا جو مثال بن جائے۔۔۔ پہلے مر حلے میں پسماندہ علاقوں کی گلی، محلوں میں ایسی کمیٹیاں بنا ئی جا سکتی ہیںجو ہر شام ملِ، بیٹھ کر اپنے، اپنے علاقوں میں موجود بے بس و مجبور بچوں کے بارے میں مشاورت، غورو فکر اور اہم فیصلے کریں، ایک فیصلہ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ محلے کا ہر گھر معصومین کی فلاح وبہبود کے لیے ہر مہینے 100 روپے کا عطیہ دے گا، ایک محلے میں اگر بالفرض 25 گھر ہیں تو اس طرح 2500 جمع ہوجائیں گے، اور اگر ایک علاقے میں 25 محلے ہیں تو جمع شدہ رقم بنے گی 62500 یہ امداد ایک علاقے سے حا صل ہوگی، اور پھر اسی طرح نہ صرف شہر قائد بلکہ ملک کے ہر علاقے میں جمع شدہ رقم سے پاکستان کے کتنے بچوں کو دکانوں، بنگلوں، سڑکوں اور چوراہوں سے اُٹھا کر اسکول بھیجا جاسکتا ہے، یہ حساب اب آپ خود لگا لیں۔ ہر ماہ جمع کی جانے والی رقم میں اگر پوش علاقوں کے مکین، مقامی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنا حصہ ملاِ دیں تو مقدارِ رقم کہاں سے کہاں پہنچ جائے!! جس اسکول میں ایسے بچوں کو داخلے کے لیے لے جایا جا رہا ہے وہ اگر فیس بالکل معاف نہیں کر سکتے تو فیس کا ایک چوتھائی لے کر حقِ انسانیت ادا کر سکتے ہیں، کتابیں، کاپیاں، یونیفارم، اسٹیشنری، موزے جوتے، اور اسکول بیگ بنانے والے کارخانے ایسے ضرورت مند بچوں کے لیے رعایتی پیکیجز کا اعلان کریں۔ کھانے، پینے کی اشیاء تیار کرنے والی کمپنیاں اسکولوں کی کینٹین میں بچوں کے لیے اشیاء کی بلامعاوضہ فراہمی کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ ٹرانسپورٹرز تنظیموں کی جانب سے مستحق بچوں کے پک اینڈ ڈراپ کے لیے خصوصی بسیں چلائی جائیں اور پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل کرتے ادارے بسوں کو ایندھن کی مفت فراہمی کرنے لگ جائیں تو کافی مدد مل جائے۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے نمائندگان بھی بہت مدگار اس طرح سے ثابت ہو سکتے ہیں کہ متعلقہ ارباب اختیار کو (جو عام لوگوں کی دسترس میں نہیں ہیں) اور عوام الناس کو ایک دوسرے کے رُو برو کر دیا جائے تاکہ مثبت، معیاری اور شفاف بحث ومباحثہ مسائل کا فوری حل ڈھونڈنے میں معاون ثابت ہو سکے، نامور صحافیوں کی میزبانی میں درجن بھر Shows Talk ہوتے ہیں، ایک آدھا ان مسائل کو اُجاگر کرنے پر بھی کرلیا جائے تو کیا ہی اچھی Rating آئے۔ اخبارات میں مضامین شایع ہوں، بچوں کے دیرینہ اور سُلگتے ہوئے مسائل اور مشکلات پر مبنی خبروں کو ہر روز تلاش کیا جائے اور پھر مسائل کے حل تک خبروں کی ا شاعت کے سلسلے کو جاری و ساری رکھا جائے‘‘۔ اگر بیان کردہ تجاویز قابلِ قبول نہ ہوں، پسند نہ آئیں، اچھی نہ لگیں تو کوئی دوسرا راستہ ڈھونڈ لیجیے، لیکن خدارا اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور تلاش کیجیے، بدقسمتی سے ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں کہ جہاں ہمیں مشکلات کے حل کے لیے خود ہی آواز اُٹھانا ہوگی، خود ہی متحرک ہونا ہوگا، مسائل کا حل اپنے طور پر تلاش کرنے کی کبھی کامیاب تو بہت بار ناکام، لیکن کوشش ضرور کرنا ہو گی!!