تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام ،فیصلہ کن کردار چوہدری برادران کا ہوگا

388

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام‘ فیصلہ کن کردار چودھری برادران کا ہوگا‘ تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا کوئی امکان نہیں‘ اپوزیشن جماعتیں شور مچا کر آئندہ عام انتخابات کی تیاری کر رہی ہیں ‘عمران حکومت اپنی کشش کھوچکی‘ اسٹیبلشمنٹ نئے الیکشن نہیں چاہتی‘ زرداری نواز لیگ کو کمزور کرنے کے لیے ق لیگ کو پنجاب میں مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری اسد منظور بٹ ایڈووکیٹ اور ممتاز تجزیہ نگار سلمان عابد نے ’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’وزیر اعظم عمران خان کے خلاف حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے گی؟‘‘ امیر العظیم نے کہاکہ جماعت اسلامی اس کھیل کا حصہ نہیں بنے گی اور اپنی آزادانہ سیاست اپنے پرچم تلے، اپنے انتخابی نشان کے تحت جاری رکھے گی تاہم زمینی حقیقت یہی ہے کہ عمران خان کی حکومت اپنی کشش کھو چکی ہے اور تحریک انصاف کی حکومت ناکام ہوچکی ہے ‘ اس کے رخصت ہونے سے خوشی ہو گی مگر اس کے بعد سیاسی جوڑ توڑ کے بجائے ہم نئے انتخابات کو ترجیح دیں گے‘ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام مسلم لیگ ق اور چودھری خاندان بہرحال فائدہ اٹھائے گااور چودھری پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے امکانات روشن ہیں کیونکہ اگر تحریک کامیاب ہوتی ہے تو اس میں اس خاندان کا کردار واضح ہو گا‘ اگر یہ تحریک ناکامی سے دو چار ہوتی ہے تب بھی اس میں چودھری خاندان کا کردار فیصلہ کن ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی جانب سے چودھری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے کی پیشکش کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ اسد منظور بٹ نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی تو بعد کی بات ہے‘ اس تحریک کے پیش ہونے کا ہی کوئی امکان نہیں‘ البتہ انتخابات چونکہ اب زیادہ دور نہیں ہیں اس لیے سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انداز میں اپنی انتخابی سرگرمیاں شروع کر چکی ہیں اور یہ جو سیاسی ہنگامہ اور شور سنائی دے رہا ہے یہ سب انتخابی مہم کا حصہ ہے‘ اسٹیبلشمنٹ آج بھی حکومت کی پشت پر ہے اور وہ اس حکومت کو 5 سال پورے کروانے کا فیصلہ کر چکی ہے‘ وزیر اعظم نے اسٹیبلشمنٹ ہی کے مشورے اور ہدایت پر پیٹرول اور بجلی سستی کرنے اور عوام کی سہولت کے دوسرے اعلانات کیے ہیں اس لیے میری پختہ رائے ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے یا اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں البتہ موجودہ سیاسی اتار چڑھائو کے نتیجے میں یہ امکان ضرور موجود ہے کہ چودھری پرویز الٰہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ سلمان عابد نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سے متعلق اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی عدم مداخلت کی ہے البتہ اس کی کامیابی کی صورت میں نئے انتخابات پر اسٹیبلشمنٹ تیار نہیں بلکہ موجودہ اسمبلیوں کو5 سال پورے کروائے جائیں گے اور انہی اسمبلیوں کو نئے قائد ایوان کے انتخاب کا موقع دیا جائے گا‘ اس معاملے میں حزب اختلاف باہم اختلاف کا شکار ہے‘ نواز لیگ تحریک کی کامیابی کے بعد از سر نو انتخابات چاہتی ہے جب کہ پیپلز پارٹی نئے انتخابات کے حق میں نہیں اور اس نے شہباز شریف کو وزیر اعظم اور پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے کی تجویز دی ہے۔ بلاول زرداری کا یہ کہنا ہے کہ ق لیگ کو بڑا حصہ دیے بغیر تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی مگر دوسری جانب نواز لیگ اور تحریک انصاف دونوں چودھری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے سے خوفزدہ ہیں کہ انہیں موقع ملا تو وہ ان کی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ اور نقصان کا سبب بنیں گے‘ ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں ہو سکا کہ تحریک عدم اعتماد وزیر اعظم کے خلاف لانی ہے یا اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف۔ اسی طرح شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم نامزدگی پر نواز لیگ کے اندر بھی اتفاق نہیں اور مریم نواز شہباز شریف کو وزیر اعظم دیکھنا نہیں چاہتیں کیونکہ ان کی رائے میں اگر ایک بار ایسا ہو گیا تو پھر ملکی سیاست میں صرف باپ بیٹا کھیلیں گے‘آصف زرداری بھی دہرا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں‘ وہ ق لیگ کو مضبوط کر کے نواز لیگ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں جس کا براہ راست پیپلز پارٹی کو فائدہ ہو گا‘ اس طرح تحریک عدم اعتماد کا فی الحال شور زیادہ ہے اور ہر کوئی اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوشاں ہے۔