خلافت اور ویٹو پاور
جس چیز کو خلافت کے نظام میں ’’ویٹو‘‘ کے اختیارات سے تعبیر کیا جارہا ہے وہ موجودہ زمانے کی دستوری اصطلاح سے بالکل مختلف چیز تھی۔ سیدنا ابوبکرؓ کے صرف دو فیصلے ہیں جن کو اس معاملے میں بنائے استدلال بنایا جاتا ہے۔ ایک جیش اسامہ کا معاملہ۔ دوسرے مرتدین کے خلاف جہاد کا مسئلہ۔ ان دونوں معاملات میں سیدنا ابوبکرؓ نے محض اپنی ذاتی رائے پر فیصلہ نہیں کر دیا تھا بلکہ اپنے رائے کے حق میں کتاب و سنت سے استدلال کیا تھا۔ جیش اسامہ کے معاملے میں ان کا استدلال یہ تھا کہ جس کام کا فیصلہ نبیؐ اپنے عہد میں کر چکے تھے اسے نبیؐ کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انجام دینا میرا فرض ہے۔ میں اسے بدل دینے کے اختیارات نہیں رکھتا۔ مرتدین کے معاملے میں ان کا استدلال یہ تھا کہ جو شخص یا گروہ بھی نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرتا ہو اور یہ کہے کہ میں نماز تو پڑھوں گا مگر زکوٰۃ ادا نہیں کروں گا۔ وہ مرتد ہے، اسے مسلمان سمجھنا ہی غلط ہے، لہٰذا ان لوگوں کی دلیل قابل قبول نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ لاالٰہ الا اللہ کے قائلین پر تم کیسے تلوار اٹھاؤ گے۔ یہی دلال تھے جن کی بنا پر صحابہ کرامؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے فیصلے کے آگے سر جھکا دیا۔ یہ اگر ’’ویٹو‘‘ ہے تو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہؐ کا ویٹو ہے نہ کہ سربراہ ریاست کا۔
٭…٭…٭
حقیقت میں اسے ویٹو کہنا ہی سرے سے غلط ہے کیونکہ سیدنا ابوبکرؓ کے استدلال کو تسلیم کر لینے کے بعد اختلاف کرنے والے صحابہ کرامؓ اس کی صحت کے قائل ہو گئے تھے اور اپنی سابقہ رائے سے انہوں نے رجوع کر لیا تھا۔
(ترجمان القرآن، نومبر 1963ء)
٭…٭…
لیلۃ مبارکۃ
اس رات میں قرآن نازل کرنے کا مطلب بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ نزول قرآن کا سلسلہ اس رات شروع ہوا۔ اور بعض مفسرین اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اس میں پورا قرآن امّ الکتاب سے منتقل کر کے حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کر دیا گیا اور پھر وہ حالات و وقائع کے مطابق جسب ضرورت نبیؐ پر 23 سال تک نازل کیا جاتا رہا۔ صحیح صورت معاملہ کیا ہے، اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اس رات سے مراد وہی رات ہے جسے سورہ قدر میں لیلۃ القدر کہا گیا ہے۔ وہاں فرمایا گیا کہ : (ترجمہ: قدر والی رات میں)، اور یہاں فرمایا کہ: (ترجمہ: مبارک رات میں)۔ پھر یہ بات بھی قرآن مجید ہی میں بتادی گئی ہے کہ وہ ماہ رمضان کی ایک رات تھی۔ (ترجمہ: رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا)۔ (البقرہ 185)
(تفہیم القرآن، سْورَۃْ الدّْخَان، حاشیہ نمبر :1)