’’اب ہمیں کیا کرنا ہے؟‘‘

588

(یوکرین پر روس کے حملے سے پیدا شدہ صورت ِ حال نے کئی ممالک کو شدید مخمصے میں ڈال رکھا ہے۔ اِن میں بھارت نمایاں ہے کیونکہ اُس کے لیے یہ بحران ’’اِدھر پہاڑ، اُدھر کھائی‘‘ والا معاملہ ہے۔ یوکرین پر حملے کی مذمت کیجیے تو روس ناراض ہوتا ہے اور اگر خاموش رہیے تو امریکا اور یورپ کے منہ پُھولتے ہیں۔ اس حوالے سے احمد آباد (بھارت) کے روزنامہ ’’لوک سَتّا جَن سَتّا‘‘ کی 25 فروری کی اشاعت میں شایع ہونے والا دیپک آشر کا تجزیہ پیشِ خدمت ہے۔)
جنگ روس نے چھیڑی، نشانہ چین نے لیا، تیر پاکستان نے چھوڑا۔ اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ بھارت میں وار روم جیسی صورت ِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ ایک طرف روس ہے جو جنگی ساز و سامان کی فراہمی کے حوالے سے بھارت کا پُرانا، قابلِ اعتماد پارٹنر ہے۔ دوسری طرف چین کے مقابل ثابت قدم رہنے کے لیے بھرپور اخلاقی و تکنیکی امداد کرنے والا اسٹرٹیجک پارٹنر امریکا ہے۔ پاکستان بظاہر چین کے مشورے اور حمایت ہی سے روس کے آغوش میں جا بیٹھا ہے۔ چین نے روس کو اپنا بنالیا ہے۔ یہ شدید بحرانی کیفیت ہے اس لیے بھارتی قیادت کو ہر قدم پُھونک کر اٹھانا ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے اس بڑے امتحان میں نریندر مودی کس طور کامیاب ہوتے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نے اپنے تمام مشیروں اور اہم وزراء کے ساتھ اجلاس کیے ہیں۔ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بھارت کے لیے ’’اگنی پریکشا‘‘ لے کر آئی ہے۔ یوکرین نے پاکستان اور بھارت دونوں سے پُرامن تصفیے میں مدد دینے کی اپیل کی ہے۔ یوکرین کا معاملہ اب نریندر مودی کے لیے اتر پردیش کے ریاستی اسمبلی کے الیکشن سے زیادہ اہم ہوگیا ہے۔ جنوری میں جرمن بحریہ کے سربراہ کائچین سونبیر نے نئی دہلی میں منوہر پریکر انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینالسز میں ایک ایسا بیان دیا تھا جس پر انہیں بعد میں مستعفی ہونا پڑا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ روس اور یوکرین کے معاملے میں چین کے مقابل جرمنی کے ساتھ ساتھ بھارت بھی اہم ملک ہے۔
روس کو یوکرین پر حملے سے روکنے کے لیے امریکا اور یورپ آگے نہیں بڑھے اور فوجی بھی نہیں بھیجے مگر پابندیاں ضرور عائد کی ہیں۔ ان پابندیوں کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے روس کو چین کی ضرورت پڑے گی۔ چین اب تک یہ کہتا آیا کہ یوکرین کا قضیہ بات چیت کے ذریعے طے کیا جائے تاہم ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ یوکرین کو ناٹو کا رکن نہ بنایا جائے۔ ایسے میں صاف ظاہر ہے کہ یوکرین پر حملے کی پاداش میں روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں کا بھگتان چین ہی کرے گا۔ اس کے نتیجے میں روس سے بھارت کی دوستی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی۔ یہ معاملہ نریندر مودی سے غیر معمولی نوعیت کے اسٹرٹیجک فیصلوں کا تقاضا کرتا ہے۔
سوئیڈن کے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار پیس ریسرچ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کو اپنے 60 فی صد فوجی ساز و سامان کے لیے روس کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ لداخ میں چین اور بھارت کی افواج اب بھی آمنے سامنے ہیں۔ ایسے میں بھارت اس پوزیشن میں نہیں کہ روس کو ناراض کرے۔ دوسری طرف امریکا اور یورپ بھی بھارت کے اہم پارٹنر ہیں۔ لداخ میں سرحدی کشیدگی کے دوران صورت ِ حال پر نظر رکھنے کے لیے بھارت کو پیٹرولنگ ائر کرافٹس کی ضرورت پڑتی ہے جو امریکا سے آتے ہیں۔ بھارت دونوں میں سے کسی کو چھوڑ سکتا ہے نہ ناراض کرسکتا ہے۔ یوکرین کی صورت ِ حال جتنی خطرناک یورپ کے لیے ہے اُتنی ہی بھارت کے لیے بھی ہے۔
اس وقت پاکستانی قیادت روس سے تعلقات بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ یہ محض جذباتیت یا اتفاق نہیں، بلکہ منصوبہ سازی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جب سے امریکا نے پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ ختم کی ہے، پاکستان نے روس سے تعلقات بہتر بنانے کی ٹھانی ہے۔ چین نے روس اور یوکرین کے درمیان پائے جانے والے تنازع کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا۔ پاکستان کو روس کی طرف متوجہ کرنے والا چین ہی تو ہے۔ یوکرین کے بحران پر اگر بھارت اور روس کے تعلقات خراب ہوں تو یہ پاکستان کے لیے ایک اچھا موقع ہے۔ عمران خان نے روسی صدر پیوٹن کو پاکستان کے دورے کی دعوت تھی مگر اِس سے پہلے کہ وہ پاکستان آتے، عمران خان خود ماسکو پہنچ گئے اور ٹائمنگ بھی زبردست رہی۔
اب نریندر مودی کو کیا کرنا چاہیے؟ یہ تو طے ہے کہ مغربی دنیا کی عائد کردہ پابندیوں سے روس اور چین میں قربت بڑھے گی۔ اس کے نتیجے میں دونوں کے درمیان عسکری سطح پر اشتراکِ عمل بھی بڑھے گا۔ بھارت اگر یوکرین کے معاملے پر امریکا کا ساتھ دینے کی کوشش کرے گا تو روس سے اس کے تعلقات بگڑیں گے۔ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعات پر روس نے اب تک غیر جانب دار رہنا پسند کیا ہے۔ امریکا اب تک بھارت کا اچھا اسٹرٹیجک پارٹنر رہا ہے۔ چین کا ڈھنگ سے سامنا کرنے کے لیے لازم ہے کہ امریکا کو بھارت کسی بھی حال میں ناراض نہ کرے۔ روس میں امریکا اور بھارت کے اسٹرٹیجک تعاون کے حوالے سے شکوک غلط یا بے بنیاد نہیں۔
آئیے، ذرا ماضی ٔ قریب میں جھانکتے ہیں۔ نومبر 2020 میں یوکرین نے کریمیا میں روس کی طرف سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کی تھی۔ بھارت نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اس سے قبل 2014 میں اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کریمیا کو روس کا حصہ بنائے جانے کے خلاف لائے جانے والی قرارداد کی بھی مخالفت کی تھی۔ مارچ 2014 میں جب روس نے کریمیا کو اپنا حصہ بنالیا تھا تب بھارت کے مشیر برائے قومی سلامتی شیو شنکر مینن نے اِسے درست قرار دیا تھا۔ امریکا اور یورپ کریمیا کو روس کا حصہ بنائے جانے کو آج بھی غلط قرار دیتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے حمایت پر پیوٹن نے شکریہ ادا کیا تھا۔
اب معاملات بہت بدلے ہوئے ہیں۔ بھارت کو جلد واضح فیصلہ کرنا ہوگا۔ افغانستان کے معاملے میں بھی اُس نے تذبذب دکھایا تھا۔ چین نے طالبان کو تسلیم اور قبول کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ اس کے نتیجے میں وہاں چین کی سرمایہ کاری بڑھ گئی اور بھارت کا بہت کچھ داؤ پر لگ گیا۔ بھارت نے پاکستان، عراق، ایران، لیبیا اور چین میں امریکی پالیسیوں کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ اب امریکا بحرِ ہند اور ایشیا و بحرالکاہل کے خطے سے زیادہ مشرقی یورپ پر متوجہ ہوگا۔ چین کا سامنا کرنے کے لیے بھارت کو روس پر انحصار کرنا پڑے گا۔ روس اور یوکرین سے بھارت کی خاصی بڑی تجارت ہے۔ حالات بھارت کو بہت سی چیزوں سے ہاتھ دھولینے کی تحریک دے رہے ہیں۔ بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے کہا ہے کہ یوکرین کی صورتِ حال کے اثرات سے بچنا ممکن نہیں۔ روس اور یوکرین کے ساتھ بھارتی تجارت چند دنوں میں غیر معمولی حد تک متاثر ہوگی۔ نریندر مودی کے لیے یہ بہت نازک وقت ہے۔ انہیں ثابت کرنا ہے کہ وہ ملک کے پرانے دوستوں اور پارٹنرز کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔