گمان کی بنیاد پر الزام تراشی شرعا حرام ہے ، اس بنیاد پر کسی کو ملزم بھی نہیں بنایا جاسکتا

552

کراچی(رپورٹ:حماد حسین) معاشرے میں یہ عام ہے کہ مخا لفت کے زعم میں اپنی زبا ن اور قلم کو آلودہ کرکے حقیقت کے بر عکس مواد پیش کیا جاتاہے اور ذ ہنوں کو پرا گندا کرنے کے لیے ہر منفی ہتھکنڈا اختیا ر کیا جاتا ہے اسلام میں دعویٰ، استغاثہ ، گواہ اور حلف کا باقاعدہ پورا نظام موجود ہے اس پورے نظام کو ختم کرکے محض گمان کی بنیاد پر الزام لگانے کی شریعت میں کوئی حقیقت اور گنجائش نہیں۔ نہ ہی اس کی بنیاد پر کسی کو ملزم سمجھا جاسکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی زبیر،جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامک ایجوکیشن کی چیئرپرسن ثریا قمراورجامعہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر الیاس استوری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیاگمان کی بنیاد پر الزام تراشی کی جاسکتی ہے ؟‘‘ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی زبیرکا کہنا تھا کہ محض گمان کی بنیاد پر الزام تراشی حرام ہے شرعا اس کی کوئی گنجائش نہیں ۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ’’ مدعی پر گواہ پیش کرنالازم ہے اور مدعا علیہ پرقسم اورحلف آئے گا‘‘ ۔اس سے پتا چلا کہ اسلام میں دعویٰ، استغاثہ ، گواہ اور حلف کا باقاعدہ پورا نظام موجود ہے اس پورے نظام کو ختم کرکے محض گمان کی بنیاد پر الزام لگانے کی شریعت میں کوئی حقیقت اور گنجائش نہیں۔ نہ ہی اس کی بنیاد پر کسی کو ملزم سمجھا جاسکتا ہے۔ جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامک ایجوکیشن کی چیئر پرسن ثریا قمرکا کہنا تھا کہ بحیثیت مسلمان ہمیں یہ تاکید کی گئی ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں محض اندازوں کی بنیاد پر کوئی رائے قائم نہ کریں۔ حدیث مبارکہ سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو‘‘ اور قرآن حکیم کی سورۃ الحجرات میں ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق اور چھا ن بین کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم لا علمی میں کسی گروہ کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر تمہیں اپنے کیے پر پچھتا نا پڑے‘‘۔اس سورۃ کی اگلی آیتوں میں ہمیں یہ تنبیہ کی جا رہی ہے کہ’’ آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگائواور نہ ہی ایک دوسرے کو برے القابات سے بلائو‘‘۔مزید کہاگیا کہ’’ اے ایمان والو بہت سی بد گمانیوں سے بچتے رہو بلا شبہ بعض بدگمانیاں گناہ کا باعث ہوتی ہیں‘‘۔ اب ذرا ہم اپنے احوال پر نظر ڈالیں تو ہم بہت آسا نی اور بغیر تحقیق کے بہت سارے ایسے الزاما ت محض حسد اور بغض کی بنیاد پر اپنے افراد خانہ یا دیگر احبا ب پر لگاتے ہیں جس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔فی زمانہ سیاسی بنیاد پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بغیر ثبوت کے بڑے رکیک اور بے ہودہ الزامات عاید کرنے کی روش عام ہو چکی ہے اور ہمار ی سوسائٹی میں ایسا کلچر فروغ پا چکا ہے جس کے نتیجے میں مخالفت برائے مخالفت کے رویے کا ظہور ہو رہا ہے یہ کسی بھی طرح اور کسی بھی سوسائٹی کے لیے مثبت رویہ نہیں ہے۔ہم سوشل میڈیا پر بچشم خود اس کو ملا حظہ کر سکتے ہیں کہ کس طرح مخا لفت کے زعم میں اپنی زبان اور قلم کو آلودہ کرکے حقیقت کے بر عکس مواد پیش کیا جاتاہے اور ذ ہنوں کو پرا گندا کرنے کے لیے ہر منفی ہتھکنڈا اختیا ر کیا جاتا ہے۔ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں جنہوں نے اپنے بد ترین دشمنوں کے لیے بھی کبھی معاندانہ رویہ اختیا ر نہیں کیا۔جامعہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر الیاس استوری کا کہنا تھا کہ بغیر کسی تحقیق و ثبوت کی بنیاد پر کسی بھی قسم کی الزام تراشی نہ صرف اخلاقی طور پر درست نہیں بلکہ شرعاً بھی جائز نہیں ہوتی ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے‘‘ یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔سورۃ احزاب میں بے گناہ مؤمنین اور بے گناہ مؤمنات کو زبانی ایذا دینے والوں یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ قرار دیاہے۔ایک روایت میں ہے کہ’’ جس نے کسی کے بارے میں محض گمان کی بنیاد پر ایسی بات کہی (الزام لگایا ، تہمت ، یا جھوٹی بات منسوب کی) جو اس میں حقیقت میں ہے ہی نہیں ، تو اللہ اسے (الزام لگانے والے، تہمت لگانے والے ، جھوٹی بات منسوب کرنے والے کو) دوزخ میں ڈالے گا (وہ آخرت میں اِسی کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ اگر وہ اپنی اِس حرکت سے (دنیا میں) باز آ جائے (رک جائے ، توبہ کر لے تو پھر نجات ممکن ہے)‘‘۔لہٰذا عدل و انصاف اور اخلاقی اقدار کا تقاضا یہی ہے کہ انسان محض گمان کی بنیاد پر تہمت سے بچے اورمکمل تحقیق کے بعد شواہد کی بنیاد پر وہ بات کرے جو کسی انسان کے لیے باعث نقصان نہ ہو۔