(بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک سے اٹھنے والا حجاب کا اِشو اب تحریک میں تبدیل ہو رہا ہے۔ ملک بھر میں مسلم خواتین کو دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کی حمایت بھی حاصل ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے احمد آباد کے اخبار ’’لوک سَتّا جَن سَتّا‘‘ کی 26 فروری کی اشاعت میں شامل تجزیہ پیش خدمت ہے۔)
………
مہنگائی، کورونا کے ہاتھوں اموات، معیشت کی خستہ حالی، بے روزگاری اور ایسے ہی دیگر پریشان کن اِشوز سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے اگر مودی سرکار حجاب کے معاملے کو طُول اور وسعت دینا چاہتی ہے تو یاد رکھے کہ کسانوں کا احتجاج بھی دیکھتے ہی دیکھتے ایک تحریک کی شکل اس لیے اختیار کرگیا تھا کہ حکومت نے معاملات کو قابو میں رکھنے پر توجہ نہیں دی تھی۔ حجاب کا معاملہ کرناٹک سے نکل کر اب کئی ریاستوں میں پھیل چکا ہے۔ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ حجاب کی تحریک کو ملک گیر بنانے پر سنجیدگی اور منصوبہ سازی سے کام ہو رہا ہے۔ حجاب خواتین کو بُری نظر سے بچانے کے لیے ہے نہ کہ مہنگائی، بے روزگاری، افلاس، کورونا سے ہونے والی اموات اور دیگر سیاسی و معاشرتی اِشوز کو چھپانے کے لیے۔
حجاب کا معاملہ رفتہ رفتہ طُول پکڑ رہا ہے۔ یہ ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ یہ معاملہ بھی کورونا کی وباء جیسا ہے جس پر قابو پانے میں اب حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر غفلت کا مظاہرہ جاری رہا تو مودی سرکار اس بار بھی حالات کا منہ دیکھتی رہ جائے گی۔ چند ایک قوتیں حجاب کے معاملے کو نہ صرف یہ کہ زندہ رکھنا چاہتی ہیں بلکہ اِسے بڑھاوا بھی دے رہی ہیں۔ اگر مودی سرکار یوگی کی مالا جپتے ہوئے اتر پردیش کا الیکشن جیتنے ہی پر متوجہ رہی تو حجاب کا معاملہ دیکھتے ہی دیکھتے بے قابو ہو جائے گا۔
حجاب کا معاملہ اب عدالت میں ہے۔ عدالت ہی کو فیصلہ کرنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں حجاب کے استعمال کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔ مگر ہاں، بھارت کی کئی ریاستوں میں انتخابی موسم چل رہا ہے۔ تو کیوں نہ حجاب کے معاملے سے تھوڑا سا سیاسی و انتخابی فائدہ اٹھالیا جائے! حجاب کا معاملہ اسکول کی سطح سے شروع ہوا تھا۔ توجہ نہیں دی گئی اور بعض حماقتیں بھی سرزد ہوئیں جن کے نتیجے میں اب معاملہ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح کے تعلیمی اداروں تک پہنچ گیا ہے۔
کرناٹک سے حجاب سے متعلق تصاویر تواتر سے آرہی ہیں۔ ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ حجاب استعمال کرنے دیا جائے کیونکہ تعلیمی اداروں میں کوئی ڈریس کوڈ نہیں یعنی کوئی یونیفارم متعین نہیں۔ حجاب کے حق میں اور خلاف دلائل دیے جارہے ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ شہریت کے قانون کی طرح اس بار بھی ایک بڑی تحریک کی تیاری جاری ہے۔
متنازع تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے حجاب کے اِشو پر راجستھان کے شہر کوٹا میں بھی مظاہرہ کیا ہے۔ مذہبی نعروں کے ساتھ ریلی نکالی گئی۔ خوب نعرے بازی ہوئی۔ پی ایف آئی کو جھاڑ کھنڈ حکومت نے ممنوع قرار دیا ہے۔ یہ سماجی تنظیم ہے مگر اِس کی سرگرمیوں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ 2019 میں اتر پردیش میں پی ایف آئی سے وابستہ 25 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ جنوبی ریاست کیرالا کی حکومت بھی پی ایف آئی کو متنازع قرار دیتی ہے۔ بہت سوں نے اِسے کالعدم تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (SIMI) کے متبادل کے روپ میں دیکھا ہے۔ کوٹا میں احتجاج کے دوران پی ایف آئی کے ایک رہنما نے کہا کہ یہ محض ردِعمل ہے۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حجاب کے معاملے کو 15 اگست تک ایک بھرپور تحریک کی شکل دے کر ملک گیر پیمانے پر بظاہر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی تیاری کی جارہی ہے۔
پی ایف آئی کی سرگرمیوں میں خواتین بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ مظاہروں میں خواتین نے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں اُن پر حجاب کے علاوہ بھی کئی مطالبات درج ہوتے ہیں۔ کیا حکومت کچھ نہیں دیکھ رہی؟ دوسری طرف خالصتان نواز تنظیم سکھز فار جسٹس کے سربراہ گرپتونت سنگھ پنو حجاب کے معاملے پر مسلمانوں کے جذبات کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ اُن پر الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو الگ وطن لینے پر اُکسا رہے ہیں۔ پنو کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ آج حجاب پر پابندی لگائی ہے تو کل کو اذان، نماز، قرآن اور قربانی پر بھی مکمل پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ پنو نے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ’’اردستان‘‘ کے نام سے الگ ملک کا مطالبہ کریں اور اِس کے لیے تحریک بھی چلائیں۔
چند ماہ قبل پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش اور اتر پردیش کے سکھوں نے متنازع زرعی قوانین کے خلاف ایسی تحریک چلائی جس نے مودی سرکار کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ سکھز فار جسٹس سکھ کسانوں کی تحریک کے دوران بھی بہت مضبوط ہوکر سامنے آئی تھی۔ مودی سرکار انا پرستی دکھا رہی تھی مگر خفیہ اداروں کے مشورے پر حکومت نے متنازع زرعی قوانین واپس لے لیے۔ خفیہ اداروں کا کہنا تھا کہ سکھ کسانوں کی تحریک خالصتان کا مطالبہ کرنے والوں کے ہاتھ میں چلی گئی تھی۔
بھارت میں سیاسی تحریکیں بڑھتی جارہی ہیں۔ کسی نہ کسی اِشو کی بنیاد پر دیکھتے ہی دیکھتے بہت کچھ داؤ پر لگایا جانے لگتا ہے۔ سکھ کسانوں کی تحریک کے پشت پر کون تھا، یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی کہ اس تحریک کے دوران عالمی شہرت یافتہ گلوکارہ ریحانہ کے ٹویٹ کس نے کرائے اور ماحول کا تحفظ یقینی بنانے والی معروف کارکن گریٹا تھنبرگ کو اس تحریک میں دلچسپی لینے کی تحریک کس نے دی؟
اس میں اب کسی کو کچھ شک نہیں رہا کہ مودی سرکار کسی بھی بڑے اِشو کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ حجاب کے اِشو نے سر اٹھایا تو نریندر مودی کی ٹیم ہی کے کچھ لوگوں نے ایسے بیانات دیے جنہوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جو کچھ اپوزیشن کو کرنا ہے وہ بھی بسا اوقات مودی سرکار کے اپنے لوگ ہی کر گزرتے ہیں۔
حجاب کے اِشو کو جلد از جلد ختم کرنا ہی مودی سرکار کے حق میں جائے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس اِشو کے بطن سے مودی سرکاری کے لیے سکھ کا سانس لینے کا موقع پیدا ہوسکے گا تو یہ محض خام خیالی ہے۔ اگر مودی سرکار یہ سمجھتی ہے کہ مہنگائی، کورونا سے ہلاکتیں، بے روزگاری، افلاس، کمزور معیشت، ذات پات کی تقسیم اور دیگر بڑے اِشوز کو چھپانے کے لیے حجاب کے اِشو کو استعمال کیا جاسکتا ہے تو یاد رکھا جائے کہ ایسی کوشش بہت مہنگی پڑسکتی ہے۔ شہریت کے متنازع قانون کی طرح یہ اِشو بھی گلے میں ہڈی بن کر پھنس سکتا ہے کیونکہ یہ بنیادی طور پر خواتین کا معاملہ ہے۔ حکومت نے تین طلاق کے معاملے میں جو ہمت دکھائی اُس پر بھی پانی پھر سکتا ہے۔ شہریت کے قانون سے متعلق جو اعتراضات سامنے آئے انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی تحریک کی شکل اختیار کی اور مودی سرکار دیکھتی ہی رہ گئی۔ مودی سرکار کو اس حوالے سے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ اگر بروقت توجہ نہ دی گئی تو حجاب بہت مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔