کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) اسلام کی پیروی کے بغیر امت مسلمہ کی عظمت رفتہ بحال نہیں ہوسکتی‘ مسلمان دین کی تبلیغ کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں‘ افغان طالبان نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف مسبب الاسباب پر توکل کرکے اعلیٰ مثال قائم کر دی‘ مسلمان اپنے ایمان میں پختگی لائیں‘ دینی علوم کے ساتھ جدید تعلیم بھی حاصل کریں‘ کرپٹ حکمرانوں کوہٹاکر اہل اور ایماندار افراد کو اقتدار میںلاناہوگا۔ ان خیالات کا اظہار نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سابق سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم خان، امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ، جامعہ کراچی کی پروفیسر ڈاکٹر جہاں آرا لطفی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کیسے ممکن ہے؟‘‘ محمد ابراہیم خان نے کہا کہ مسلمان اپنے ایمان میں پختگی لائیں‘ ایمان کے تقاضوں پر عمل کریں‘ دینی علوم کے ساتھ عصری علوم میں بھی مہارت حاصل کریں‘اپنے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کریں‘ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور باہر کی مخالفتوںکی فکر نہ کریں بلکہ ساری فکر اپنی کمزوریوں کو ر فع کرنے میں لگائیں‘ اللہ تعالی سے اپنا تعلق بڑھائیں‘ اللہ کا خوف اور رسولؐ کی محبت دل میں جا گزیں کریں‘ ریا، فخر اور خود غرضی سے بچیں جو کام کریں‘ خلوص قلب کے ساتھ کریں اور رب کائنات سے ہی عدل وانصاف اور کرم کی امید رکھیں‘ بدی کو مٹانے اور بھلائی کو قائم کرنے کے لیے جان و مال اور اپنے وقت کو بروئے کار لائیں‘ بغض، کدورت اور عداوت کو دل سے نکالیں‘ اپنے وجود کو انسانیت کے لیے نافع بنائیں ‘ دین اسلام کے درست پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور دوسروں کے قصور ڈھونڈے کے بجائے اپنی خامیوں کا تدارک کریں‘ اپنے فرائض کو ادا کریں تو ان شاء اللہ سبھی کی خامیوں کا ایک ساتھ تدارک ہوجائے گا‘ اللہ تعالیٰ کا اس امت کے ساتھ وعدہ ہے کہ انسانیت کی امامت، سیادت، قیادت اور پیشوائی وہ اس امت کو دے گا جو اللہ کے فرمابردار ہوں گے‘ اس وقت امت کی قیادت اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کے ہاتھوں میں ہے‘ عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے لازم ہے کہ امت مسلمہ اللہ کے نافرمانوں کے ہاتھوں سے قیادت چھین کر اللہ تعالیٰ کے فرمابردار بندوں کے ہاتھوں میں دے دیں ۔ شجاع الدین شیخ نے کہا کہ امت مسلمہ افراد کا وہ گروہ ہے جو پیغمبرؐ کے ناصرف ماننے والوں کا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پیغمبروں کی جانشینی، معاونت اور ان کا ساتھ دینے کے لیے بھی کھڑا کیا ہے‘ آج امت مسلمہ ہی نبی اکرمؐ کی امت ہے‘ ہم سے قبل بنی اسرا ئیل کے لو گ امت مسلمہ قرار پائے تھے‘ انہیں اللہ کی کتاب کو تھامنے، پیغمبروں کے مشن میں شریک ہونے اور اللہ کے دین کی جدوجہد کرنے کا حکم دیاگیا تھا لیکن ہم جانتے ہیں کہ بنی اسر ائیل نے اللہ کی کتاب پس پشت ڈالی دی گویا وہ کچھ علم ہی نہیںرکھتے (سورۃ البقراۃ آیت نمبر 101) پیغمبر کا ساتھ دینے سے بھی انکا ر کیا۔ (سورۃ معائدہ آیت نمبر 24)،تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ذلت، محتاجی مسلط کر دی‘ (سورۃ البقراۃ آیت نمبر61) قرآن میں یہ تقسیم آتی ہے کہ امت جن کاموں کے لیے کھڑی کی جاتی ہے اس کام سے ہی اس کی اہمیت ہوتی ہے‘ آج مسلمانوں کو (سورۃ العمران آیت نمبر 110) کا ایک حصہ تو یاد ہے کہ تم بہترین امت ہو مگر اگلا حصہ بھول گئے کہ تمہیں لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘ تم نیکی کا حکم دو اور بدی سے روکو ، اس امت کو آج اللہ کے رسولؐکی ختم نبوت کے بعد آپ ؐ کی نمائندگی کے لیے کھڑا کیا گیا ہے ۔ شجاع الدین شیخ نے کہا کہ ہمارا معاملہ مختلف ہے علامہ اقبال نے کہا کہ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر، خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ‘ غیروں کے لیے اللہ کا قانون اس معاملے میں مختلف ہے‘ اقتدار، اختیار، مال ودولت، شان وشوکت، کرسی، طاقت سب کچھ فرعون اور نمرود کو ملا‘ ان کفار کے لیے دنیا میں سب کچھ ہے مگر آخرت میں کچھ بھی نہیں‘ اللہ کو ماننے والے جب اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ مخلص ہوںگے اور اللہ کی کتاب کو تھام لیں گے‘ اللہ کے دین کو اولین ترجیح دیں گے تو اللہ دنیا میں بھی عزت عطا کرے گا اور جیسے مسلم شریف میں آیا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ اس قرآن کی بدولت اس قوم کو عروج عطا فرمائے گا اور ترک کر دینے کی وجہ سے قوموں کو ذلت و رسوائی میں مبتلا کر دے گا۔ اس بات کی ترجمانی علامہ اقبال نے اس طرح کی ہے کہ ’وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر، اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر‘ اللہ کی کتاب بتاتی ہے کہ دین کے احکام کو نافذ کرو گے تو تمہاری عزت ہوگی ورنہ دنیا میں کوئی عزت نہیں بلکہ آخرت میں بھی رسوائی تمہارا مقدر بنے گی۔ سورۃ محمدؐکی آیت نمبر7 میں آیا ہے کہ ’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے قدموں کو مضبوط رکھے گا‘‘ اگر آج امت مسلمہ چاہتی ہے کہ عظمت رفتہ کی بحالی ہو تو پھر ایمان کی محنت کرنی پڑے گی۔ سورۃ العمران آیت نمبر 139میں ہے کہ ’’تم ہی غالب رہو گے، اگر تم ایمان والے ہو اور پھر اللہ پر توکل کرو۔‘‘ سورۃ طلاق کے آغاز میں ہے کہ ’’جو اللہ پر توکل کرے اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے‘‘ ظاہر ی اسباب میں جدید ٹیکنالوجی، جہاز، اسلحہ اور میزائل جو کچھ بھی میسر ہو مگر مسبب الاسباب پر توکل نہ ہو تو کچھ نہیں ہوسکتا‘ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اللہ تعالیٰ پر توکل کرکے پوری امت مسلمہ کے لیے اعلیٰ ترین مثال قائم کردی‘ مادہ پرستی اور جدید ٹیکنالوجی ہار گئی۔ جہاں آرا لطفی نے کہا کہ اسلام حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کو اہم قرار دیتا ہے ‘یہ دونوںایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ قرآن کی سورۃ العمران کی آیت 110کا مفہوم ہے کہ ( مسلمانوں ) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے ‘ تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا ، ان میں سے کچھ تو مومن ہیں مگر ان کی اکثریت نافرمان ہے‘‘ ۔ یہ ہے امت محمدیہ کی اساس ‘ مادی ترقی اس کے بعد آتی ہے ‘ اسلام مادی ترقی کو ترجیح نہیں دیتا ہاں اہمیت ضرور دیتا ہے‘ مدینے میں آنے کے بعد رسول اللہ نے شاندار عمارتیں، سڑکیں، پل اور اسپتال تعمیر نہیں کیے بلکہ ایک مضبوط، پر امن سلطنت اور وہاں اللہ کا نظام حقوق العباد کی مکمل شکل میں رائج کیا تھا‘ خلافت راشدہ کا دور بھی حقوق اللہ کے بعد پائیدار اخلاقی اقدار پر سختی سے عملدرآمد کا علمبردار تھا‘ یہی راستہ مادی ترقی کی جانب جاتا ہے۔ مثلاً ہم ایک شاندار یونیورسٹی بنا دیتے ہیں لیکن وہاں کے اساتذہ سب کرپٹ ہوں تو یہ معاشرے کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوگا‘ اسی طرح ایک بہترین وسائل سے مالامال اسپتال بنا دیا جائے لیکن اس میں ڈاکٹرز و دیگر عملہ بددیانت اور کام چور ہو تو یہ کتنے دن چلے گا۔ اگر ہم سادہ سی عمارت میں قائم درسگاہ میں دیانتدارانہ طریقے پر علوم و فنون کی منتقلی کر یں تو ہماری نسل نو کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی‘ اسی طرح اگر سادے سے اسپتال میں ایماندار ڈاکٹرز و عملہ تعینات ہو تو وہ کس قدر فیض پہنچائے گا‘ یہی نظام حکومتی اداروں کی کارکردگی میں مطلوب ہے‘ اسی نظام کے تحت امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔