اسلام آباد (میاں منیر احمد) برطانیہ، جرمنی اور یورپ دوسری عالمی جنگ کی تباہی کے اثرات سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکے، جرمنی، اٹلی اور یورپ کے بیشتر ممالک کے معاشی مفادات روس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، یورپ اورنیٹو روس کا عالمی اثر و رسوخ ختم نہیں کر سکتے، اس جنگ میں نیٹو آئے گا اور نا ہی یوکرائن نیٹو سے کوئی مدد لے سکے گا، مذاکرات کی جانب حالات بڑھ رہے ہیں، یہ بات تجزیہ کاروں، سفارتی مبصرین، انٹرنیشنل قوانین کے ماہرین اور سابق سفارت کاروں نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کہی جس میں ان سے معلوم کیا گیا تھا کہ کیا نیٹو افراج یوکرائن کی مدد کے لیے میدان جنگ آئیں گی؟ سابق ہائی کمشنر ڈاکٹر عبدالباسط نے کہا کہ صورت حال کا جائزہ لینے سے پہلے ہمیں اس خطہ کی جغرفیائی پوزیشن دیکھنی ہوگی اور اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ کس کے کیا مفادات ہیں اور ان مفادات کے لیے وہ کیا پیش قدمی کرسکتا ہے اور اسے کس قدر عالمی حمایت مل سکتی ہے، یوکرین کی پوزیشن یہ ہے کہ اس کے ایک طرف روس اور اس کے زیر اثر بیلا روس کے ممالک ہیں اور دوسری جانب اس کی سرحدیں یورپی ممالک جن میں پولینڈ، مالدووا، رومانیہ، ہنگری اور سلواکیہ سے ملتی ہیں یوں یہ خطہ کئی ثقافتوں سے بھرپور ہے یوکرین کی زیادہ تر آبادی یورپ سے متاثر ہے اور آبادی کا ایک حصہ روس سے متاثر ہے۔ اس کی سیاسی جماعتیں بھی اسی میں تقسیم ہیں، کچھ امریکا اور یورپ نواز ہیں اور نیٹو اور یورپ سے تعلق چاہتی ہیں کچھ علاقائی حد تک رہتی ہیں اور کچھ روس نواز ہیں سرد جنگ ختم ہوئی توامریکا اور یورپ کے روس کے ساتھ تنازعات بھی ختم ہو گئے ان کا خیال تھا کہ روس دوبارہ ان کے لیے کبھی خطرہ نہیں بن سکتا ،نائن الیون کے بعد دنیا کا سیاسی نقشہ بدل گیا افغانستان میں امریکا نیٹو کے ساتھ حملہ آور ہوا جس کے بعد یہ خطہ عالمی دلچسپی کا باعث بن گیا ہے‘ وجہ صرف معاشی مفادات ہیں روس نے بھی اپنی توجہ یوکرین پر مرکوز کر لی اور روسی سرحد سے متصل علاقوں لوہانسک اور ڈونیٹسک جہاں روسی نسل کے آباد لوگ خودمختاری کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، کی مدد شروع کردی لیکن مرکزی حکومت اور عوام کی اکثریت کا رجحان چونکہ یورپ کی طرف ہے اس لیے امریکا اور یورپ یہاں اپنے مفادات تلاش کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود نیٹو یہاں روس کے خلاف یوکرائن کی مدد کے لیے نہیں آسکتا کہ اسے عالمی حمایت میسر نہیں ہوگی البتہ نیٹو اور امریکایوکرائن کے داخلی حالات کے باعث اس خطے میں اپنا اثر رکھنا چاہے گا لیکن روس بھی اپنا پائوں یہاں نہیں نکالے گا۔تجزیہ کار عظیم چودھری نے کہا کہ برطانیہ، جرمنی اور یورپ دوسری عالمی جنگ کی تباہی کے اثرات سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکے، یورپ کے بیشتر ممالک جرمنی اور اٹلی کے معاشی مفادات روس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، جرمنی اور اٹلی اس سے گیس لیتے ہیں تب ان کی صنعت چلتی ہے، یورپ اورنیٹو روس کا عالمی اثر و رسوخ ختم نہیں کر سکتے، اس جنگ میں نیٹو آئے گا اور نہ یوکرائن نیٹو سے کوئی مدد لے سکے گا، مذاکرات کی جانب حالات بڑھیں گے، برطانیہ، اور پورپی ممالک عالمی جنگ میں پیش آنے والی تباہی کے باعث ایک نئی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے یورپ روس کا اثر بھی ختم نہیں کرسکتا، حالیہ پابندیوں سے روس پر کیا ہوگا؟ یہ اہم بات ہے اس پر غور کرنا چاہیے، یورپ روس پردبائو بڑھائیں گے کہ بات چیت کی میز پر آئے، جنگ کے لیے نیٹو نہیں آئے گا۔ مسلم لیگ(ض) کے سربراہ محمد اعجاز الحق نے کہا کہ روس علاقے میں نیٹو کی موجودگی کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا رہا لیکن مغربی ممالک صرف یوکرینی حکومت کا حوصلہ تو بڑھاتے رہے لیکن عملاً کچھ نہیں کیا اور اب بھی ایسا ہی ہوگا عملاً یوکرین کی مدد کے لیے نہیں آئے گا، یورپ کے بعض ممالک بالخصوص جرمنی روس کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے کیونکہ ان کا زیادہ انحصار روس سے درآمد شدہ توانائی پر ہے۔ تجزیہ کار اعجاز احمد نے کہا کہ نیٹو اور امریکا نے آنا ہوتا اتو آچکے ہوتے، امریکا کی تاریخ رہی ہے کہ وہ مدد کے لیے آنے کا دعوی تو کرتا ہے مگر آتا نہیں ہے ہمیں اس کا تجربہ دسمبر1971 کی جنگ میں ہوچکا ہے روس یوکرائن عالمی معاملہ نہیں ب؛لپ یہ خطے کا اور دو پڑوسیوں کا معاملہ ہے ماضی میں جتنے بھی تنزعات سامنے آئے ہیں ان میں امریکہ کی مداخلت بھی ایک عنصر رہی ہے اس میں بھی یہی نکتہ کارفرما ہے میڑا خیال ہے کہ امریکہ ابھی ابھی افغانستان سے نکلا ہے وہ کسی نئی مشکل میں فی الحال نہیںپڑنا چاہتا، ہاں اس کی لیڈر شپ اپنے مڈ ٹرم انتخاب میں کامیابی کے لیے کچھ سوچ ضرور رہی ہوگی روس کو شکائت رہی ہے امریکہ یہاں مداخلت کررہا ہے جس کے باعث حالات خراب ہوئے ہیں ۔دفاعی تجزیہ نگار کرنل (ر)نعیم نے کہا کہ ایک نئی پیش رفت ہوئی ہے کہ یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی نے یوکرین سے انخلاء میں مدد کی امریکی پیشکش ٹھکرا دی ہے امریکی حکومت نے صدر زیلنسکی کو کیف سے نکلنے میں مدد کی پیشکش کی تھی،یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی نے امریکہ کو جواب دیا ہے کہ اسے اینٹی ٹینک ہتھیاروں کی ضرورت ہے، کیف سے نکلنے کے لیے فلائٹ کی نہیں، امریکہ کے لیے اس جواب میں بہت کچھ ہے یوکرائن اس مسلئہ کو خود اپنے بل بوتے پر ہی حل کرنا چاہتا ہے ان کا کہنا تھا کہ دارالحکومت کیف کو نہیں کھو سکتے، آزادی کے لیے آخری وقت تک لڑیں گے۔ سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل حسنین ایڈوکیٹ نے کہا کہ نیٹو اور امریکہ اپنے مفاد کے لیے تو آگے آسکتے ہیں تاکہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں تاہم وہ یوکرائن کی مدد کے لیے نہیں آسکتے۔ سپریم کورٹ کے سینئر قانون دان قوسین فیصل مفتی نے کہا کہ حالات بدل رہے ہیںروس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین کے خلاف جنگ روکنے کی قرار داد ویٹو کردی ہے قرار داد میں یوکرین کے خلاف روسی ’جارحیت‘ کی مذمت کی گئی تھی اور فوجوں کے فوری انخلاء کا مطالبہ کیا گیا تھا۔سلامتی کونسل کے 15 میں سے 11 اراکین نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا تاہم چین، بھارت اور متحدہ عرب امارات نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ جنہوں نے ووٹ دیا اور جب غیر حاضر رہے ان کے بارے تجزیہ اور ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے یوکرین کے صدر نے بھی کہا کہ یورپ ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کیلئے زیادہ تیزی اور طاقت کا مظاہرہ کرے یورپ کے پاس روس کی جارحیت روکنے کیلئے کافی طاقت موجود ہے اس کا استعمال کیا جائے لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔