واشنگٹن: امریکا کی سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ ایران سے چلائی جانے والی سائبر مہم کے ذریعہ ایشیا، افریقہ، یورپ اور شمالی امریکا کے سرکاری اور پرائیوٹ سیکٹر کے اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
امریکا کی سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے ایک مشترکہ سائبر سکیورٹی ایڈوائزری (سی ایس اے) جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ‘مڈی واٹرز’ نامی ایک ایرانی سائبر گروہ دیگر ملکوں میں مواصلات، دفاع، مقامی حکومتوں اور تیل اور گیس جیسے شعبہ جات کو نشانہ بناتا ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ گروہ سائبر مہم کے ذریعہ ایشیا، افریقہ، یورپ اور شمالی امریکا کے سرکاری اور پرائیوٹ سیکٹر کے اداروں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
سی ایس اے نے اس سلسلے میں باضابطہ نوٹس جاری کی ہے۔یہ ایڈوائزری اس لحاظ سے کافی اہم ہے کہ اسے امریکا کے فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن (ایف بی آئی) اور سائبر سکیورٹی اینڈ انفرااسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی(سی آئی ایس اے) نے یوایس سائبر کمانڈ سائبر نیشنل مشن فورس(سی این ایم ایف) اور برطانیہ کے نیشنل سائبر سکیورٹی سینٹر(این سی ایس سی) نیز نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے)کے ساتھ مشترکہ طور پر جاری کی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ‘مڈی واٹرز’ نامی ایرانی عناصر کا مشاہدہ کیا ہے، جو مواصلات، دفاع، مقامی حکومتوں اور تیل اور قدرتی گیس کے شعبوں میں مشکوک سائبر آپریشنز سرانجام دے رہے ہیں۔ایڈوائزری کے مطابق مڈی واٹرز ایران کے وزارت انٹلی جنس او رسکیورٹی (ایم او آئی ایس) کا حصہ ہے، جو سائبر جاسوسی اور سائبر آپریشنز جیسی کارروائیوں میں ملوث ہے۔
اسی حوالے سے امریکی ادارے سی آئی ایس اے کی ویب سائٹ پر جاری کی جانے والی مال ویئر اینالسس رپورٹ (ایم اے آر) میں مڈی واٹرز کے زیر استعمال 23 طریقوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ’ایڈوانسد پرسسٹنٹ تھریٹ’ (اے پی ٹی)نامی ایک گروپ ایران کی وزارت انٹلی جنس او رسکیورٹی (ایم او آئی ایس) کے مقاصد کے حصول کے لیے سن 2018 سے بڑے پیمانے پر سائبر مہم چلارہی ہے۔ مڈی واٹرز کے عناصراسے چوری کیے گئے ڈیٹا فراہم کرتے ہیں۔
ان کی رسائی ایرانی حکومت تک ہے اور وہ دیگر سائبر حملہ آوروں کی بھی مدد کرتے ہیں۔اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے امریکا کے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ایرانی مشن کے ترجمان نے کہا،”یہ الزامات ایران کے خلاف جاری نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں اور ان کی کوئی حقیقی یا قانونی بنیاد نہیں ہے۔”