روس ڈرانا چاہتا تھا، ڈرا دیا

611

(روس نے یوکرین پر حملے کی تیاریاں مکمل کرکے پورے یورپ کو شدید خلجان میں مبتلا کیا ہے۔ امریکا اور یورپ کی قیادتیں مل بیٹھ کر روس کی طرف سے پیدا کیے جانے والے بحران کا کوئی معقول حل تلاش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں مگر اب تک کچھ خاص کیا نہیں جاسکا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن بظاہر روس کی طاقت کا مظاہرہ چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ امریکا کو یہ پیغام بھی دینا چاہتے ہیں کہ پوری دنیا کو صرف وہ نہیں چلا جاسکتا، دوسری قوتوں کو بھی کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑے گا۔ اس حوالے سے بھارت کے شہر احمد آباد سے شائع ہونے والے اخبار ’’لوک سَتّا جَن سَتّا‘‘ کا اداریہ ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔)
………
یوکرین کے حوالے سے صورت ِ حال روز بروز بگڑتی جارہی ہے۔ روس نے اپنی فوج یوکرین کی سرحد سے ہٹانے کا جو عندیہ کچھ دن قبل دیا تھا وہ اب کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ روس نے کریمیا کے معاملے میں اپنے تنازعات ختم کرنے کی بات بھی کہی ہے مگر امریکی صدر جوزف بائیڈن روسی قیادت پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روس نے یوکرین پر حملہ کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ ہم خیال ممالک کی قیادت سے مشاورت کے بعد ایک پریس کانفرنس میں امریکی صدر نے کہا کہ روس کی جنگی تیاریوں کے حوالے سے ہمیں کوئی شبہ نہیں۔ امریکی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ روس کے فوجی اب بھی یوکرین کی سرحد پر موجود ہیں اور اُن کی حملے کی تیاریاں بھی مکمل ہیں۔ دوسری طرف یوکرین میں معاشی معاملات بہت تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ معیشت پہلے ہی بحرانی کیفیت سے دوچار تھی۔ روسی حملے کی صورت میں رہی سہی کسر پوری ہو جائے گی۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن یوکرین کی معیشت کو کمزور کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور اُن کی حکمت ِ عملی کی کامیابی یہ ہے کہ وہ لشکر کشی کے بغیر ہی یوکرین کو اچھا خاصا کمزور کرچکے ہیں۔ یوکرین کی معیشت میں واضح کمزور نمایاں ہے۔
یوکرین کی صورت ِ حال نے وسط ایشیا کے بیش تر ممالک کے لیے بھی شدید دباؤ پیدا کردیا ہے۔ اُن کی معاشی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ مالیاتی شعبہ بھی دباؤ میں ہے اور معاشرتی خرابیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ یوکرین کے سابق وزیر ترقی اور کئیف اسکول آف اکنامکس کے سربراہ ٹموفے مائیلوونوف کہتے ہیں کہ چند ہفتوں کے دوران یوکرین کو جنگی تیاریوں کے حوالے سے کئی ارب ڈالر خرچ کرنا پڑے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معیشت کمزور پڑی ہے۔ اگر جنگ چھڑ گئی تو یوکرین میں انتہائی نوعیت کی مشکلات پیدا ہوں گی۔
بین الاقوامی میڈیا آؤٹ لیٹس نے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ روسی حملے کے خدشے نے یوکرین میں سب سے زیادہ ائر لائن انڈسٹری اور ریئل اسٹیٹ کے شعبے کو نقصان پہنچایا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وسط ایشیا کی ریاستوں پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ یوکرین کے دارالحکومت کئیف میں فری لانسر کی حیثیت سے کام کرنے والے پاولوف کالییُک امریکا، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کے شہریوں کو املاک بیچنے اور کرائے پر دینے کا کام کرتے ہیں۔ نومبر میں جب سے روس نے یوکرین پر حملے کا عندیہ دینا شروع کیا تب سے پاولوف کالییُک کے سودے منسوخ ہونے لگے۔ کئیف میں چھوٹے، بڑے اپارٹمنٹس کے سودے معرضِ التواء میں ہیں کیونکہ ابھی کچھ واضح نہیں کہ حتمی صورتِ حال کیا ہوگی۔
فضائی سفر کی صنعت بھی شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ دنیا بھر سے یوکرین کے لیے پروازیں منسوخ کی جارہی ہیں۔ یوکرین سے روانہ ہونے والی پروازوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں ائر لائن انڈسٹری کا شعبہ بحران کی زد میں ہے۔ یوکرین کی ائر لائنز کو اپنے مسافروں کے لیے انشورنس کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ اس شعبے کے لیے نیا اور اضافہ جھٹکا ہے۔
کم و بیش محاصرے کی کیفیت سے دوچار یوکرین کے لیے بیرونی تجارت جاری رکھنا بھی انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ بحیرۂ اسود کی بندر گاہوں سے بیرونی تجارت پر روس نے اب تک پابندی عائد نہیں کی۔ پولینڈ سے بھی یوکرین کی سرحد کھلی ہوئی ہے۔ یوکرین ہر سال سورج مکھی کا کم و بیش تین لاکھ ٹن تیل بھی برآمد کرتا ہے۔ اس وقت تیل کی شپمنٹس بھی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں۔ دنیا بھر کی بیمہ کمپنیوں کے صدر دفاتر لندن میں ہیں۔ تیل کی طرح بیمے کی سب سے بڑی منڈی بھی لندن میں ہے۔ لندن کی بیمہ کمپنیوں نے روس اور یوکرین کے تجارتی جہازوں کے لیے انشورنس کور دینے سے کترانا شروع کردیا ہے۔ جنگ کے خطرے کے پیش نظر پریمیم اس قدر بڑھادیا گیا ہے کہ تجارتی کمپنیوں کے لیے ادا کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ بیمہ کمپنیوں نے روس اور یوکرین کے پانیوں کو کاروباری لحاظ سے سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یوکرین کی بندر گاہیں بھیانک لڑائی کی گواہ بنی تھیں کیونکہ سابق سوویت افواج نے ان بندر گاہوں کو جرمن افواج سے واپس لینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ یوکرین کے لیے اُس کی بندر گاہیں بہت اہم ہیں کیونکہ دنیا بھر سے خوراک اور دیگر اہم اشیاء سمندری راستوں سے یوکرین پہنچتی ہیں۔ تیل
اور گیس کے ٹرمنلز اور اشیائے خور ونوش کے گوداموں کے باعث اوڈیسے کی بندر گاہ پر زیادہ دباؤ ہے۔ جنگ کی صورت میں اسی بندر گاہ کو نشانے پر لیے جانے کا بھی امکان ہے۔
اس وقت بھی یوکرین کی سپلائی چین متاثر ہے۔ ملک میں بہت سی ضروری اشیاء کی قلت پائی جاتی ہے۔ ایسے میں روسی حملہ پورے خطے کو سنگین بحران سے دوچار کرسکتا ہے۔ یوکرین کے طول و عرض میں لاکھوں افراد شدید بے یقینی کے عالم میں ہیں۔ کاروباری شعبہ شش و پنج کی حالت میں ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ فی الحال کیا کِیا جائے۔ بہت سے کاروباری اداروں نے چھانٹیاں بھی شروع کردی ہیں۔ قوتِ خرید کم ہونے سے تجارتی سرگرمیاں بھی ماند پڑگئی ہیں۔ کریئیٹیو ایجنسی موگجی گروپ کے چیف ایگزیکٹیو گوراوایا کا کہنا ہے کہ لوگ گھر بیٹھ گئے ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ معاشی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے حملہ کیے بغیر ہی یوکرین کو شدید مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ اُس کی معیشت کمزور پڑچکی ہے اور کئی دوسرے شعبوں میں بھی لوگوں کا اعتماد گرگیا ہے۔ معاملات کی خرابی نے یوکرین کی معیشت کو وہ نقصان پہنچاہی دیا ہے جس کا ماہرین جنگ کی صورت میں خدشہ ظاہر کر رہے تھے۔
روس کی حکمت ِ عملی کامیاب رہی ہے۔ افواج سرحد پر تعینات کرکے صدر پیوٹن نے مغربی دنیا میں کھلبلی مچادی ہے۔ امریکا اور یورپ کے درمیان اختلافات بھی بڑھے ہیں۔ مغرب کے متعدد ممالک کی قیادت یوکرین کی صورت ِ حال کے حوالے سے آپسی اختلافات بھی دور کرنے میں ناکام رہی ہے۔ امریکا نے اب تک تو یہی چاہا ہے کہ کسی نہ کسی صورت اس بحران کے صدف سے اپنے مفادات کا گہر نکال جائے مگر اب تک کچھ خاص ملا نہیں۔ جنگ چھڑ جائے تو امریکا کی چاندی ہوسکتی ہے کیونکہ اسلحہ تو اُسی کا فروخت ہوگا۔