ترقی پزیر ممالک کا المیہ یہ ہے وہ ترقی یافتہ ممالک کے مقروض ہوتے ہیں اور مقروض کی کوئی زبان نہیں ہوتی اس لیے وہ ساری زندگی ترقی یافتہ ممالک کی غلامی میں گزار دیتے ہیں، ایک اہم بات یہ ہے کہ جو ممالک قرض دیتے ہیں ساتھ اپنی تہذیب، زبان، نظام تعلیم، معاشی اور سیاسی نظام بھی دیتے ہیں۔ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو دنیا کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسی قوم نہیں ملے گی جس نے کسی دوسرے کی زبان اپنا کر معاشی ترقی کی منازل طے کی ہوں کیونکہ انسان اپنی زبان میں سوچتا ہے ترقی کے خواب اپنی زبان میں دیکھتا ہے۔ علم و تحقیق کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔ پاکستان کے آئین کی شق نمبر یعنی دفعہ 251 میں درج ہے۔ ’’(1) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے، (2) شق 1 کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریزی کو سرکاری مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ 1940 میں قائد اعظم نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی (1903ء– 1979ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی اردو اور عربی پر مبنی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکات کے ارتقا میں گہرا اثر ڈالا اور بیسویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کو ان کی دینی خدمات کی پیش نظر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن کے نام سے مشہور ہے اور جدید دور کی نمائندگی کرنے والی اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔ تفہیم القرآن کا بیش تر حصہ 1948 میں مولانا مودودی نے جیل میں لکھا۔
سارترے بیسویں صدی میں فرانس کے فلاسفر گزرے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1940 میں جرمن آرمی کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور نو ماہ تک جیل میں قیدی رہے۔ قید میں سارترے نے اپنی پہلی اور جیل میں کل چار کتابیں لکھیں۔ جیل سے رہائی کے بعد وہ لٹریچر کی طرف راغب ہوئے اور 1964 میں انہیں نوبل پرائز آف لیٹریچر سے نوازا گیا۔ اپنی 75 سالہ زندگی میں کل 21 کتابیں لکھیں جن میں آٹھ کتابیں دنیا کی بیسٹ سیلر بکس رہیں۔ پال سارترے نے آخری انٹرویو برصغیر کے متعلق دیا تھا۔ جب ان سے اس انٹرویو میں پوچھا گیا کہ بیسویں صدی کے لحاظ سے برصغیر پاک وہند کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ تو پال سارترے نے اس وقت ایک بات کہی تھی؛ ’’بیسویں صدی کے لحاظ سے برصغیر کا مسئلہ نہ غربت ہے، نہ افلاس، نہ بھوک ہے اور نہ ننگ… بلکہ اس کا سب سے بڑا مسئلہ زبان کی منافقت ہے۔ کہ اپنی زبان کو چھوڑ کر دوسرے قوم کی زبان پر چلنا شروع کردیا ہے‘‘۔
ہم سمجھتے ہیں کہ تاریخ کو بدل دیں گے، لیکن ہم یہ نہیں سمجھتے کہ اگر ہم نے اپنی تقدیر کو اپنی زبان میں تبدیل کیا تو تاریخ ہم سے بدل جائے گی۔ پچھلے پانچ ہزار سال میں صرف دو اقوام نے ترقی کی ہے جنہوں نے نئی نئی ایجادات کیں۔ انہیں دو اقوام نے دنیا میں تاریخ کو ایک نیا موڑ دیا یعنی صرف یہی دو قومیں ایسی ہیں جن پر ترقی کی تاریخ لکھی گئی ہے۔ پہلے عرب، اور دوسرے نمبر پر انگریز نظر آتے ہیں۔ عربوں کے پاس کچھ نہیں تھا۔ نہ معیشت تھی، نہ فلسفہ تھا، نہ طب تھی، نہ سائنس۔ عربوں نے پوری دنیا کا علم پہلے اپنی زبان میں منتقل کیا۔ اْس وقت ہارون الرشید کا زمانہ تھا، وہ ہر مترجم کو تیس ہزار دینار کی معاوضہ دیتا تھا۔ اگر آج کے حساب سے دیکھا جائے تو وہ اْس وقت 1کروڑ اور بیس لاکھ پاکستانی روپیہ ہر مترجم کو ماہانہ دیتے تھے۔ اور جب عربوں نے پوری دنیا کا علم اپنی زبان میں ترجمہ کیا، تو پھر ابن علی، ابراہیم الفزاری، الفارابی، الکندی، ابن الحیا، البیرونی، ابن زہر، جعفرالصدیق، ابن خلدون، ابو حنیفہ النعمان، بوعلی سینا اور الغزالی جیسے 269 سائنسدان پیدا کیے جنہوں نے سائنس میں ہر قسم کے شعبے کی بنیاد رکھی اور دنیا کے ہر دروازے پر مسلمان کو کھڑا کیا جو معاشی ترقی کی بنیاد بنا۔
دوسری ترقی انگریز قوم کی ہے۔ شیکسپیئر کے ڈرامے اور صرف 6 رومینٹک پوائنٹ کے علاوہ انگریزوں کے پاس کچھ نہیں تھا۔ نہ معیشت، نہ فلسفہ، نہ طب، نہ سائنس نہ آسٹرالوجی اور نہ آنسٹرونومی۔ رات کو کتاب فرانس میں چھپتی تھی، اگلی صبح وہ بیٹھ کر پاگلوں کی طرح اْس کا ترجمہ کرتے تھے۔ آپ کو بوعلی سینا عربی میں ملے یا نہ ملے، انگریزی زبان میں ضرور ملے گی۔ انگریزوں نے کتب اور ہر علم کو اپنی زبان میں منتقل کرلیا تب جاکر انہوں نے اپنی تاریکی کو ہٹایا معاشی ترقی کی طرف گامزن ہوا، اور آج انگریز نے دنیا میں نیوکلیئر پاور، ہوائی جہاز، آٹوموبائل، راکٹ، انٹرنیٹ، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ورلڈ وائڈ سوشل نیٹ ورکس، اور اسمارٹ فونز جیسی ایجادات کر کے دنیا کو حیران کر ڈالا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر انٹرنیٹ بند کیا جائے تو دنیا کا پہیہ رک جائے گا۔ انگریزوں نے وہی علم جس میں عربوں نے ترقی کی تھی، کو اپنی زبان میں منتقل کرکے ترقی کی، اور آج ہم ان سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ لوگوں نے کیسے ترقی کرلی؟
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
انگریز ہمیں 74 سال سے بے وقوف بنا کر ہم سے کہتے ہیں آپ لوگوں کا مسئلہ انگریزی زبان میں مہارت نہیں، اس لیے آپ لوگ ترقی نہیں کرسکتے۔ اگر یہی بات ہے تو پھر ہم ایران کی مثال لے سکتے ہیں۔ ایران نے 37 سال پہلے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اپنی زبان کے اندر گفتگو کریں گے، ہم اپنی زبان بولیں گے اور اپنی ہی زبان میں پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کریں گے۔ آج 25 سال سے لگاتار ہر سال ایران سے کسی ایک شعبے میں سے ایک شخص نوبل پرائز کے لیے نامزد ہوجاتا ہے۔ کیا یہ ترقی ایران نے انگریزی زبان میں کی جو ہر سال ایران نوبل پرائز کے لیے نامزد ہوتا ہے؟
چین اِس وقت دنیا کی سب سے ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے۔ چین ہمارے ملک کے بعد آزاد ہوا، لیکن آج چین کے پاس کل 40 ٹریلین ڈالر سے زائد سرمایہ ہے، نیٹ ورتھ 120 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ پاکستان 50 اعشاریہ پچاس ٹریلین روپے قرضوں کے ملبے کے نیچے دبا ہوا ہے۔ چین کی کل آبادی 1 اعشاریہ بیالیس بلین ہے اور ہماری آبادی صرف 22 کروڑ۔ لیکن اس کے باوجود چین سالانہ 2 سو سترہ اعشاریہ 3 بلین ڈالرز برآمدات اور صرف اعشاریہ چھیاسی ٹریلین درآمدات، جبکہ پاکستان پچیس اعشاریہ تیس کروڑ ڈالرز برآمدات اور 4 اعشاریہ چھپن ارب ڈالرز درآمدات ہیں۔ چین کی فی کس آمدن 7 ہزار چار سو ڈالرز جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی 1 ہزار ایک سو نوے ڈالرز ہیں۔
ہم اپنی قومی زبان اردو کو چھوڑ کر مسلسل تنزلی کی سمت جارہی ہے۔ اگر پاکستان نے معاشی ترقی کرنی ہے تو سارا تعلیمی نظام اور سرکاری امور کو اردو میں تبدیل کرنا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت مشکل فیصلہ ہے، لیکن مشکل فیصلے ہمیشہ مشکل وقتوں میں ہی کرنے پڑتے ہیں۔
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کُہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں