خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

483

وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے ماضی میں عورت مارچ کے نام پر ہونے والی غیر اخلاقی سرگرمیوں اور غلیظ اور خلاف اسلام نعروں پر مشتمل مظاہروں کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم سے کہا ’’کہ آئندہ 8 مارچ 2022 کو منائے جانے والے یوم خواتین میں کسی بھی طبقے کو عورت مارچ یا کسی بھی دوسرے عنوان سے اسلامی شعائر، معاشرتی اقدار، حیا پاک دامنی، پردہ، حجاب وغیرہ پر کیچڑ اچھالنے، تمسخر اڑانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے، کیونکہ ایسا کرنا مسلماناں پاکستان کے لیے سخت اذیت، تکلیف اور تشویش کا باعث بنتا ہے‘‘۔ لیکن وفاقی کابینہ نے الیکٹرونک کرائمز کی روک تھام کے قانون 2016ء میں آرڈیننس کے ذریعے ترامیم لانے کی منظوری دیدی۔ آرڈیننس کے تحت فوج، عدلیہ اور دیگر سرکاری اداروں پر تنقید کرنے والوں کو پانچ سال تک قید کی سزا دینے کی تجویز ہے۔ فوج عدلیہ اور دیگر اداروں میں فیصلہ کرنے والے انسان ہی ہوتے ہیں لیکن یہ آرڈیننس انہیں خدا کے درجے پر فائز کررہا ہے کہ ان پر کوئی تنقید نہیں کرسکتا یہ آرڈیننس اس لیے بھی شرمناک ہے وفاقی کابینہ کو فوج اور عدلیہ کا تقدس اسلامی شعائر کے تقدس سے زیادہ عزیز ہے۔ جبکہ فوج اور عدلیہ اسی آئین پاکستان کی پابند ہیں جو یہ کہتا ہے کہ اسلام کے متصادم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جاسکتا اور اسلام میں کوئی بھی شخص احتساب سے بالاتر نہیں ہے۔ وزیراعظم جوکہ ریاست مدینہ کی رٹ لگائے رکھتے ہیں وہ ’’شاہ مدینہ‘‘ کی دی گئی تعلیم کے خلاف نعروں کو ٹھنڈے پیٹوں پی جاتے ہیں۔ نور الحق قادری کی اس تجویز کی مخالفت ان کی وزیر شیریں مزاری اور ان کے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کی ہے۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمن نے بھی نور الحق قادری کے لتے لیے ہیں۔ لیکن نور الحق قادری کے اس مطالبے کی مخالفت کا مطلب اس حلف سے انحراف ہے جو ان وزراء اور سینیٹر صاحبہ نے اٹھایا ہے جس میں انہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ ’’میں اسلامی نظریے کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہوں گا /گی جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے‘‘۔ پاکستان میں کوئی منصف اور غیر جانب دار عدلیہ ہوتی تو حلف کی خلاف ورزی پر ان لوگوں کو تاحیات نااہل قرار دے دیتی کیونکہ ان لوگوں نے پاکستان کی بنیاد کے خلاف بات کی
ہے۔ کیا نور الحق قادری کا یہ مطالبہ غلط ہے؟ انہوں نے تو عورت مارچ پر پابندی کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ پاکستان کے آئین کے خلاف اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جب ایسے مطالبات کی مزاحمت کی جاتی ہے یہ مطالبہ کرنے والا دفاعی پوزیشن میں آجاتا ہے۔ یہی کچھ وفاقی وزیر مذہبی امورنور الحق قادری نے کیا ہے انہوں نے وضاحت کی ہے ’’کہ وزیر اعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں عورت مارچ پر پابندی لگانے کی نہیں بھارت میں مسلم خواتین کے ساتھ ظلم وزیادتی اور حجاب پر پابندی لگانے کے خلاف ان سے یکجہتی کے لیے یوم حجاب منانے کی تجویز دی، ملک میں عورت مارچ کے نام پر باہر نکلنے والے لوگ فاشسٹ لبرل طبقہ ہے جو پردہ کرنے والی خواتین کو الگ مخلوق سمجھتے ہیں وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے کہا کہ عورت مارچ سے ملک میں تنائو اور تقسیم ہوئی ہے، کوئی انتہائی مذہبی اور کوئی فاشسٹ لبرل ہے۔ فاشسٹ لبرل طبقے کو عورتوں کے سارے مسائل صرف پردے میں نظر آتے ہیں اور پردے کے سوا انہیں کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ میں نے وزیر اعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں عورت مارچ پر پابندی کی بات بالکل نہیں کی بلکہ میں نے خط میں 8 مارچ کو موجودہ حالات کے تناظر میں یوم حجاب منانے کی تجویز دی ہے۔ بھارت میں مسلم بچیوں پر جو ظلم ہو رہا ہے ان سے یکجہتی کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ عورت مارچ میں شریک چند خواتین پورے ملک کی خواتین کی نمائندگی کرتی ہیں جو مارچ کرتی ہیں وہ 5 فی صد بھی نہیں ہیں۔ عورت مارچ دراصل ملک سے اسلامی تشخص کو خراب کرنے کی دانستہ کوشش اور سازش نظر آتی ہے اور ایسے نعرے استعمال کیے جاتے ہیں جو خواتین اپنی زبان پر نہیں لا سکتی ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم خواتین کے لباس پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتے ہیں لیکن گھروں میں بیٹھی اور پردہ کرنے والی خواتین کو الگ مخلوق سمجھنا اور ان کی بے توقیری کرنا بھی درست نہیں‘‘۔ یہ معذرت خواہانہ رویہ درست نہیں انہوں نے بالکل درست نشان دہی کی ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے حق کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔ یہی نہیں ایک بڑے اخبار میں شائع ہونے والے مضمون میں حجاب، عفت و عصمت کو بزعم خود ایک سیکولر صحافی امتیاز عالم نے موضوع بناتے ہوئے وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کی اور ان کی حمایت کرنے پر جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمن) کی مذمت کی ہے۔ اور اپنے مضمون میں عورت مارچ کی ماضی حرکتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ امتیاز عالم ملک کے ایک مشہور صحافی ہیں، ان کا دین مذہب اور عقیدہ کیا ہے؟ اس سے ہمیں اس لیے غرض نہیں کہ وہ خود اس معاملے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے وزیر اعظم سے کہا کہ وہ عالمی یوم خواتین کو پاکستان میں یوم حجاب کے طور پر منائیں اور مخلوط عورت مارچ کے خلاف اسلام نعروں پر پابندی عائد کریں۔ لیکن ہمیں افسوس اس بات پر ہے کہ قرآن حکیم کا وہ جو حوالہ دے رہے ہیں وہ ادھورا دے رہے ہیں سورۂ النور کی جن آیات 30 اور 31 حوالہ دیا ہے جس کے لیے انہوں نے علامہ اسد کے انگریزی ترجمے سے اردو ترجمہ کیا ہے اسے انہوں نے دانستہ طور پر نامکمل اور ادھورا کیا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ امتیاز عالم کو انگریزی نہیں آتی لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ انہوں نے قرآن کی آیات کے ترجمے کو مسخ کرکے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ علامہ اسد نے وہ نہیں کہا ہے جو انہوں نے اپنے مضمون میں بیان کیا ہے۔ اور انہوں نے میرا جسم میری مرضی کی جس طرح وکالت کی ہے وہ بھی اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ جس خمیار کا ذکر علامہ اسد نے کیا ہے اس کی تشریح کرتے ہوئے علامہ نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں یہ خمیار عرب عورتیں اپنی پشت پر
ڈالتی تھیں قرآن نے حکم دیا کہ انہیں اپنے سینوں پر ڈالو۔ علامہ اسد نے کہیں بھی پردے اور حجاب کی مخالفت نہیں کی ہے۔ علامہ اسد آسٹریا اور ہنگری نژاد یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے انہوں نے اسلام قبول کیا تھا اور پاکستان کی شہریت اختیار کی تھی لیکن دفتر خارجہ میں سر ظفر اللہ خان جو مرزا غلام احمد قادیانی کے پیرو کار تھے انہوں نے ان کو برداشت نہیں کیا اور علامہ اسد کو پاکستان سے جانا پڑا۔ ان کی پہلی بیوی ایلسا شائنمن جرمن یہودی تھیں، انہوں نے بھی اسلام قبول کیا اور حجاب اختیار کیا، ان سے دو بیٹے تھے۔ علامہ اسد کی دوسری بیوی منیرہ سعودی شہریت رکھتی تھیں ان کے بیٹے طلال اسد بھی ایک اسکالر اور فلاحی کام کرنے والے شخص ہیں۔ خمیار کی یہ تشریح جو علامہ کے نام سے اخبار کے مضمون میں بیان کی گئی ہے یہ محض امتیاز عالم کے ذہن کی اختراع ہے علامہ نے ایسا نہیں کہا ہے۔ امتیاز عالم نے سورۂ النور کی 30 ویں آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ: ’’مومن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شروم و حیا کی حفاظت کریں۔ اسی طرح انہوں نے سورۂ النور کی 31 ویں آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ: اسی طرح مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم و حیا کی حفاظت کیا کریں‘‘۔
امتیاز عالم نے یہاں ڈنڈی ماری ہے قرآن حکیم کے تمام تراجم میں یہاں شرم گاہوں کی حفاظت کا کہا گیا ہے اور آیت 31 کو انہوں نے ادھورا پیش کیا ہے اس میں خواتین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی زینت نہ دکھاتی پھریں۔ علامہ اسد نے بھی اپنے ترجمہ قرآن ’’میسج آف قرآن ‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اس لیے امتیاز عالم سے گزارش ہے کہ وہ دیانت داری کے ساتھ قرآن حکیم کا بھرپور مطالعہ کریں یہ بات خوش آئند ہے کہ انہوں نے قرآنی حوالے دیے ہیں لیکن اپنے کمزور موقف کو مضبوط بنانے کے لیے اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے نہیں۔ انہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے کہ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔ نورالحق قادری کے خط پر رپورٹنگ بھی جانب دارانہ کی گئی ہے، بی بی سی نے بھی جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 8 مارچ 2022 کو کس فتنے کی پیدائش ہوتی ہے۔